خاندان والوں کے ہاتھوں جنسی غلام بننے والی خاتون نے ایسی باتیں بتائیں جنہیں جان کر آپ بھی کانوں کو ہاتھ لگائیں گے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 10, 2017 | 19:56 شام

اوٹاوا (مانیٹرنگ ڈیسک) ترقی یافتہ مغربی ممالک کو جہاں ایک جانب فلاحی معاشرے کی روشن مثال قرار دیا جاتا ہے تو وہیں دوسری جانب ان ممالک کا اخلاقی زوال انہیں تہذیبی پسماندگی کی تاریک ترین مثال ثابت کرتا نظر آتا ہے۔ کینیڈا جیسے ملک میں ایک کمسن لڑکی کا اپنے ہی گھر والوں کے ہاتھوں بدترین جنسی استحصال اسی اخلاقی زوال کی بھیانک مثال ہے۔دی مرر کی رپورٹ کے مطابق جیسہ ڈیلو کرسپ، جن کی عمر اب 29سال ہے، کا کہنا ہے کہ ان کے بچپن میں ان کے اپنے ہی گھر والوں نے انہیں جنسی غلام بنایا، ان سے فحش فلموں میں کا

م کروایا، اور حتٰی کہ کم عمری میں ہی ان سے جسم فروشی بھی کروائی جاتی رہی۔ جیسہ نے بتایا کہ وہ صرف 10 سال کی تھیں جب ان کے گھر والوں نے انہیں جنسی دھندے میں جھونک دیا۔ ابتدائی طور پر ان سے فحش فلموں میں کام کروایا جاتا تھا، جس کے بعد انہیں جسم فروشی کے کام پر لگادیا گیا اور وہ بے شمار قحبہ خانوں میں یہ کام کرنے پر مجبور رہیں۔ انہیں ہوس پرست گاہکوں کے پاس نہ صرف کینیڈا کے مختلف شہروں میں بھیجا جاتا تھا بلکہ کبھی کبھار سرحد پار امریکہ بھی بھیجا جاتا تھا۔گلوبل سٹیزن سے بات کرتے ہوئے جیسہ کا کہنا تھا ”میں اس وحشت کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتی۔ وہ قحبہ خانے، وہ مرد جو میری عصمت دری کرتے تھے، اور وہ ظلم جو مجھ پر ڈھایا گیا، اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے اپنے سامنے لوگوں کو قتل ہوتے دیکھا۔ کئی بار مجھے لگا کہ میں مر جاﺅں گی لیکن میری بے کسی کا یہ عالم تھا کہ کسی سے شکایت نہیں کر سکتی تھی، کیونکہ پولیس والے بھی میری عصمت دری کرنے والوں میں شامل تھے۔ میں مدد کی درخواست لے کر کس کے پاس جاتی۔“ جیسہ نے جنسی درندگی کے اس جہنم سے 2010ءمیں نجات حاصل کی، جس کے بعد انہوں نے تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور کلینیکل کاﺅنسلنگ کے مضمون میں ڈگری حاصل کی۔ وہ پی ایچ ڈی مکمل کر کے اپنی زندگی جنسی استحصال کا نشانہ بننے والی خواتین کے نام وقف کرنا چاہتی ہیں۔اور ان لڑکیوں کی مدد کرنا چاہتی ہین جن کو بچپن میں ہی اس طرح کے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔