2023 ,اپریل 14
بھارت نے مان لیا کہ ستائیس فروری 2022ءکوجب پاک فضائیہ نے دو بھارتی فائٹر فضا میں تباہ کردیئے تھے اسی روز بوکھلاہٹ میں اس کے کمانڈروں نے اپنا ہی چھ فوجیوں سمیت ہیلی کاپٹر مار گرایا تھا۔ بھارت اس سے انکار کرتا رہا۔اب اسی بنا پر گروپ کیپٹن سمن رائے کا کورٹ مارشل کیا گیا۔
اس موضوع پر اگلی بار،آج بات کرتے ہیں عبدالمالک ریگی، احسان اللہ احسان ،نورین لغاری اورگلزار امام شمبے کی ۔ پاکستان کے مایہ ناز انٹیلی جنس اداروں نے گلزار امام کو گرفتار کر کے کلبھوشن کی گرفتاری جیسی کامیابی حاصل کی۔ ایران نے عبدالمالک ریگی کو ایسے ہی ایک اپریشن میں گرفتار کیا تھا۔ عبدالمالک ریگی جنداللہ کا سربراہ تھا۔ اس نے ایک بیان میں ستمبر 2009ءکو سیستان بلوچستان میں ہونیوالے خودکش حملے کی ایک بیان میں خود ذمہ داری قبول کی تھی۔
اس ہولناک دھماکے میں ایرانی انقلابی گارڈز کے اعلیٰ افسران سمیت 42 افراد مارے گئے تھے۔بری فوج کے نائب سربراہ جنرل نور علی شوشتری ، سیستان بلوچستان صوبے میں گارڈز کے سربراہ جنرل محمد زادہ کے علاوہ قریبی صوبے کرمان کے بھی تین اعلیٰ فوجی افسر بھی جاں بحق ہوئے۔ اس واقعہ کے بعد ریگی کی گرفتاری کے لیے ایرانی ایجنسیاں زیادہ متحرک ہوئیں۔ ریگی پر بغاوت اور دہشتگردی کے مقدمات بھی درج تھے۔ اسے اپنے مطلوب ہونے کا کی شدت کااندازہ تھا۔ وہ ایران اور ایرانی اداروں سے پَرے اور بچ کے رہنے کی ہر ممکن کوشش کرتا۔ ہمیشہ دستانے پہنے رکھتا تاکہ کسی کے ساتھ ہاتھ ملائے تو بھی اس کی شناخت ظاہر نہ ہو۔ ایک مقام پر وہ دو سے زیادہ راتیں قیام نہ کرتا۔پھر ایک روز فروری 2010ءکوریگی دبئی سے کرغیزستان جا رہا تھا کہ ایرانی حدود گزرتے طیارے کو اتار لیا گیا۔ اسی سال جون میں پھانسی دیدی گئی۔ایرانی ذرائع کا کہنا ہے کہ ریگی افغان پاسپورٹ پر کرغیزستان امریکی عہدیدار سے ملاقات کیلئے جارہا تھا۔ اس کے بھائی عبدالحمید ریگی کو زاہدان میں 2008ءمیں پھانسی دی گئی تھی۔ اسے اسلام آباد سے گرفتارکرکے ایران کے حوالے کیا گیا تھا۔کسی دور میں ایمل کانسی کو ہماری حکومت نے امریکہ کے حوالے کیا تھا۔ان کو پھانسی دیدی گئی تھی۔
گلزار امام عرف شمبے کی گرفتاری کی تفصیلات حیران کن ہیں۔ نومبر2022 ءمیں بلوچ نیشنل آرمی نے الزام لگایا تھا کہ گلزار امام حکومت پاکستان کی حراست میں ہے ۔ بی بی سی کے مطابق اُس وقت پاکستان کے ایک اہلکار کا دعویٰ تھا کہ گلزار امام کو ترکی سے حراست میں لے کر پاکستان کے حوالے کیا گیا ۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق گلزار امام ایک سخت گیر عسکریت پسند ہونے کے ساتھ ساتھ کالعدم تنظیم بلوچ نیشنل آرمی کا بانی تھا جو بلوچ ریپبلکن آرمی (بی آر اے) اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی (یو بی اے) کے انضمام کے بعد وجود میں آئی تھی۔ بی این اے، پنجگور اور نوشکی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں (لیویز) کی تنصیبات پر حملوں سمیت پاکستان میں درجنوں پرتشدد دہشت گرد حملوں کی ذمہ دار ہے۔ اس کی کارروائیوں کا دائرہ کار لاہور اور جنوبی پنجاب تک پھیلا دیا تھا۔گلزار امام 2018 تک بلوچ ریپبلکن آرمی (بی آر اے) میں براہمداغ بگٹی کا نائب بھی رہا۔ گلزار امام بلوچ راجی آجوئی سانگر (براس) کا آپریشنل سربراہ رہا۔گلزار امام کے افغانستان اور انڈیا کے دورے بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں اور دشمن ملک کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ساتھ اس کے روابط کی مزید چھان بین کی جا رہی ہے۔
گلزار امام کا تعلق بلوچستان کے علاقے پنجگور پروم سے ہے۔اس نے 2003 ءمیں طلبہ سیاست میں قدم رکھا اس وقت وہ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن یعنی بی ایس او امان گروپ میں تھا۔ جب 2006 ءمیں بی ایس او کے تمام دھڑوں کا انضمام ہوا اور بی ایس او آزاد کا قیام عمل میں آیا تو وہ بی ایس او پنجگور ریجن کے صدر منتخب ہوا۔
گلزار کا بھائی ناصر امام بھی عسکریت پسند تنظیم مجید بریگیڈ میں رہا۔ پنجگور میں گذشتہ برس ایف سی ہیڈ کوارٹر پر حملے میں وہ ہلاک ہوگیا تھا۔ گلزار امام کو اب گرفتار کیا گیا ہے۔
طالبان افغانستان سے اب بلوچ عسکریت پسندوں کو نکال رہے ہیں۔ اب ان کے پاس دو آپشنز ہیں یا تو ایران چلے جائیں یا پاکستان میں رہیں تاہم ایران کی شرائط بہت سخت ہیں۔پاکستان میں رہنے کیلئے انہیں پُرامن رہنا ہوگا۔ ملک دشمنی کے ایجنڈے کیساتھ پاکستان میں قیام ممکن نہیں۔ایسا کرینگے تو انجام ناصر امام اور گلزار امام سے مختلف نہیں ہوگا۔
گلزار امام کلبھوشن اور عبدالمالک ریگی جیسی سزا کا مستوجب ہے۔ عبدالمالک ریگی کو پھانسی لگی ، اس کی جگہ کوئی اور لیڈر اس تنظیم کا سربراہ بن گیا۔ وہ بھی وہی کچھ کر رہا ہے جو ریگی نے کیا۔گلزار امام کے ساتھی بھی ایسا ہی کریں گے۔ گلزار کی پھانسی سے بلوچستان نیشنل آرمی کا وجودختم ہو جاتا ہے تو اسے کل صبح سے پہلے پھانسی لگا دی جائے۔ مگر ایسا ممکن نہیں ہے۔ بی این اے کی شدت پسندی مزید بڑھے گی۔ ریاست شدت پسند بلوچ دھڑوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے کوشاں رہی ہے۔ گلزار امام کو بھی قومی دھارے میں لانے کی کوشش کی جائے۔ اس کے سارے ساتھی تو نہیں البتہ کئی اس کے ساتھ آنے پر تیار ہو سکتے ہیں۔
17اپریل2017ءکو ایک خبر میڈیا پر بڑی نمایاں ہوتی ہے۔ ڈی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے خود کو سکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیا ہے۔فروری2020ءکو بھارتی میڈیا کے ذریعے خبر سامنے آتی ہے کہ احسان اللہ احسان فرار ہوگیا۔ اس کی تصدیق بھی ہوگئی۔ احسان اللہ احسان نے بھی اپنی آڈیو جاری کر دی۔ احسان اللہ نے خود گرفتاری دی۔ اس نے جو بتانا تھا بتادیا، اس سے جو پوچھنا تھا پوچھ لیا گیا ۔ اب وہ ٹی ٹی پی کے حلقوں میں متحرک نہیں ہے۔
اس کی گرفتاری سے پہلے اور ”فرار“ کے بعدکالعدم ٹی ٹی پی آیا مضبوط ہوئی یا کمزور؟۔ اس بارے ادارے ہی بتا سکتے ہیں۔ گلزار امام عرف شمبے کا کیا کرنا ہے۔ اس سے کیسے نمٹنا ہے اس سے کیا کام لینا ہے، ادارے ہماری سوچ سے کہیں زیادہ آگے سوچتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ نگرانی میں رہتے ہیں۔ یہ ان کی حفاظت کا بھی تقاضہ ہے۔ ان کی انفرادیت بھی مدنظر ہوتی ہے۔نورین لغاری کی سندھ یونیورسٹی میں داعش سے تعلق ہونے کی بنا پر2019ءمیں رجسٹریشن منسوخ کر دی گئی جبکہ چار سال قبل اسی لڑکی کو داعش کے چنگل سے ایجنسیوں نے نکالا اور وہ معمول کی زندگی کی طرف آ گئی تھی۔گویا قومی دھارے میں شامل ہوگئی۔اس کی رجسٹریشن کی منسوخی اس کیلئے بڑا دھچکا بنی۔ وہ قومی دھارے میں آنے پر پچھتا تو نہیں رہی؟