ریونج پورن کیا اور اس کا تدارک کیسے ممکن ہے؟۔مکمل تفصیل تمام تر جزئیات کیساتھ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 17, 2022 | 18:31 شام

رابعہ (فرضی نام ) کی چند سال قبل ایک لڑکے سے دوستی ہوئی تھی۔ جب دوستی بڑھی تو رابعہ نے اپنی کچھ ذاتی نوعیت کی تصاویر اپنے دوست کے ساتھ شیئر کر دیں۔ کچھ دنوں کے بعد دونوں کا بریک اپ ہو گیا اور پھر ایک دن رابعہ نے دیکھا کہ اس کے سابق بوائے فرینڈ نے وہ تصاویر فحش ویب سائٹ (پورن) پر شیئر کر دی ہیں۔ رابعہ ایک نامعلوم مقام پر مجھ سے ملنے آئی تھیں، ملاقات کے دوران وہ ہر چیز کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ انھوں نے بتایا ’مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب اسے کیسے روکو۔ میرا دماغ کام نہیں کر رہا تھا۔ مجھ
ے ایک طرح سے نروس بریک ڈاؤن ہو گیا تھا، کیونکہ وہ تصاویر بہت تیزی سے پھیل رہی تھیں۔ میں ڈر گئی تھی کہ اگر کسی جاننے والے نے دیکھ لیا یا اگر میں کسی ایسے شخص سے ملوں جس کے ساتھ میرے اچھے تعلقات نہیں ہیں، تو وہ انھیں کیسے استعمال کرے گا۔‘ ایسے مشکل وقت میں رابعہ نے اپنی سہیلی کی مدد سے لاہور میں خواتین کے حقوق اور تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ہیلپ لائن کا سہارا لیا۔ یہ تنظیم پاکستان میں خواتین کو ڈیجیٹل سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے کام کرتی ہے اور خواتین میں آگاہی بھی پھیلاتی ہے۔ رابعہ عدالت میں اپنے سابق بوائے فرینڈ کے خلاف کوئی الزام تو ثابت نہ کر سکیں لیکن وہ پورن سائٹس سے اپنی تصاویر ہٹانے میں ضرور کامیاب ہو گئیں۔ تاہم وہ ابھی تک یہ محسوس کرتی ہیں کہ وہ محفوظ نہیں ہیں اور لگ بھگ پہلے جیسی صورتحال میں پھنسی ہوئی ہیں۔ رابعہ کا کہنا تھا کہ ’اب مجھے کسی پر بھروسہ نہیں ہے، میں ہمیشہ اس فکر میں رہتی ہوں کہ کیا وہ تصاویر دوبارہ انٹرنیٹ پر آئیں گی یا نہیں، مجھے یہ ڈر شاید اب زندگی بھر رہے گا۔‘ دراصل رابعہ کا کیس پاکستان میں تیزی سے بڑھتے ہوئے ’ریوینج پورن‘ کیسز کی صرف ایک مثال ہے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ اور سمارٹ موبائل فون کے بڑھتے استعمال کے ساتھ خواتین کی ذاتی تصاویر بغیر اجازت کے استعمال کرنے اور ان کے ذریعے انھیں بلیک میل کرنے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ شرمندگی اور بدنامی کا خوف خواتین کا تحفظ متعدد مرتبہ ایسے کیس سامنے آئے ہیں کہ کئی سال پہلے بنائی گئی ویڈیوز اور تصاویر کو ’ریوینج پورن‘ کے طور پر استعمال کیا گیا جس کا متاثرین کی زندگیوں پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے۔ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کے مطابق، ان کی ہیلپ لائن کو گذشتہ سال چار ہزار سے زیادہ شکایات موصول ہوئیں، جن میں سے 1,600 کے قریب ذاتی نوعیت کی تصاویر کے غیر مجاز استعمال سے متعلق تھیں۔ اس پہلو پر کام کرنے والے کارکنوں کے مطابق ایسے کیسز کی حقیقی تعداد کا پتہ لگانا بہت مشکل ہے، کیونکہ زیادہ تر کیسز میں خواتین شرمندگی اور بدنامی کے خوف سے شکایت کے لیے آگے نہیں آتیں۔ پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سائبر کرائم ونگ کی تفتیشی افسر عظمیٰ خان کے مطابق گذشتہ چند برسوں میں ان کے پاس اس نوعیت کی شکایت لے کر آنے والی خواتین کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں سائبر کرائم ونگ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ریوینج پورن سے متعلق شکایات کا جائزہ لے۔ عظمیٰ خان کے مطابق ملک میں زیادہ تر معاملات میں، یہ شکایات سابق بوائے فرینڈز، منگیتر، ناراض دفتری ساتھیوں اور بہت سے معاملات میں شوہر کے خلاف سامنے آتے ہیں۔ پاکستان میں ’ریوینج پورن‘ کے زیادہ تر معاملات میں خواتین کو ان کی ذاتی نوعیت کی تصاویر یا ویڈیوز ان کے گھر والوں کو بھیج کر یا سوشل میڈیا پر پوسٹ کر کے دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ سنہ 2016 میں پاکستان میں سائبر کرائم کی روک تھام کے لیے ’ریوینج پورن‘ جیسے جرائم میں سات سال قید اور بھاری جرمانے کی سزا کا قانون بنایا کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود اب بھی زیادہ تر خواتین سائبر ونگ سے مدد لے کر قصورواروں کو سزا دینے کے لیے قانونی راستہ اختیار نہیں کرتی ہیں۔ ایف آئی اے کے سائبر ونگ کی افسر عظمیٰ خان کا کہنا ہے کہ ’ان خواتین کو لگتا ہے کہ پہلے ہی بہت زیادہ نقصان ہو چکا ہے اور یہ کہ اب اس معاملے کو یہیں روک دینا چاہیے۔ بس مزید نہیں، وہ چاہتی ہیں کہ اس معاملے کی معلومات زیادہ لوگوں تک نہ پہنچیں۔ وہ اپنے گھر والوں سے بھی اسے خفیہ رکھنا چاہتی ہیں۔‘ عظمیٰ خان نے خواتین کے ایسے معاملات سے پیچھے ہٹنے کی ایک اور وجہ بھی بتائی کہ ’ان کے پاس طویل قانونی جنگ لڑنے کے لیے نہ تو وسائل ہیں اور نہ ہی صلاحیت۔ بعض اوقات یہ ان کی منگنی یا شادی کے ٹوٹنے کا باعث بھی بنتا ہے۔ بہت سے معاملات میں خواتین میں خودکشی کے رجحانات بھی نظر آتے ہیں۔‘ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن ایسی خواتین کی مدد کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو ایسے جرائم کا شکار ہیں لیکن خوف اور بدنامی کی وجہ سے وہ شکایت کے لیے آگے نہیں آتیں۔ یہ تنظیم نہ صرف خواتین کی ذہنی مدد کرتی ہے بلکہ عدالت میں قانونی لڑائی لڑنے والی خواتین کو قانونی مدد بھی فراہم کرتی ہے۔ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نگہت داد کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والی نوجوان لڑکیاں اور خواتین اس طرح کے جرائم کا شکار ہو سکتی ہیں۔ وہ صارف ہیں لیکن وہ آن لائن سکیورٹی اور تحفظ کے طریقوں سے آگاہ نہیں ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں جانتی کہ وہ کس کے ساتھ کون سا ڈیٹا شیئر کر رہی ہیں، اور یہ کہاں تک پہنچ سکتا ہے۔‘ نگہت کے مطابق ریوینج پورن کا شکار ہونے والی زیادہ تر خواتین کو لگتا ہے کہ یہ اُن ہی کی غلطی تھی۔ انھوں نے کسی پر بھروسہ کرتے ہوئے ڈیٹا شیئر کیا جس کی وجہ سے یہ مشکل سامنے آئی۔ نگہت یہ بھی بتاتی ہیں کہ دیہی علاقوں کی زیادہ تر خواتین آن لائن تحفظ کی قانونی دفعات اور ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن جیسی تنظیموں سے واقف نہیں ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں خواتین اپنے گھر والوں سے بھی مدد نہیں لیتیں کیونکہ گھر والوں کو بتانے پر اُن پر الزام لگانے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ نگہت کے مطابق بعض اوقات ریوینج پورن کے معاملے میں غیرت کے نام پر قتل بھی ہوتے ہیں۔ سنہ 2016 میں پاکستان کی پہلی خاتون سوشل میڈیا سلیبریٹی قندیل بلوچ کو ان کے اپنے بھائی نے قتل کر دیا تھا کیونکہ اُن کا خیال تھا کہ قندیل سوشل میڈیا پر ’بہت سی بولڈ ویڈیوز جو خاندان کی عزت کو داغدار کرتی ہیں‘ پوسٹ کر رہی تھیں۔ قندیل بلوچ کے قتل کے بعد ہی سوشل پلیٹ فارم کو خواتین کے لیے محفوظ بنانے کی بحث شروع ہوئی اور متاثرین کی مدد کے لیے قوانین بنائے گئے۔ اس قانون کے نافذ ہونے کے پانچ سال بعد بھی صرف 27 افراد کو ریوینج پورن، رضامندی کے بغیر ذاتی نوعیت کی تصاویر کے استعمال اور تصویروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے بلیک میل کرنے کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔ ’طویل اور تکلیف دہ قانونی عمل‘ گذشتہ ماہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنی ایک اہم رپورٹ میں کراچی یونیورسٹی کے ایک خاتون لیکچرار کی کیس اسٹڈی کو شامل کیا تھا۔ انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ جس کا عنوان ’الیکٹرانک کرائمز ایکٹ پر نظرثانی، سائبر کرائمز قوانین کیسے خواتین کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں‘ میں کہا گیا ہے کہ کراچی یونیورسٹی کی ایک خاتون لیکچرار نے اپنی تصاویر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور انھیں آن لائن پوسٹ کیے جانے کی شکایت درج کرائی تھی۔ شکایت درج کرنے کے بعد چار سال آٹھ ماہ اور 141 سماعتوں کے بعد اسی یونیورسٹی کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر کو قصوروار ٹھہرایا گیا۔ رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ان چار برسوں کے دوران وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے کیس کو خراب کرنے کی تمام کوششیں کیں۔ تفتیشی ایجنسی نے ابتدائی طور پر خاتون کو عدالتی سماعت کے بارے میں آگاہ نہیں کیا۔ تفتیشی افسر اور پراسیکیوٹر کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے خاتون کو سماعت میں شرکت کے لیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑا۔ ملزمان کے وکیل کے سوالات شرمناک تھے۔ وہ خاتون پروفیسر سے ان تصویروں کے بارے میں تفصیل سے وضاحت طلب کرتا تھا۔ نگہت داد کے مطابق اگرچہ ایجنسی اپنے عمل کو خواتین کے لیے آسان اور زیادہ آرام دہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کسی حد تک درست ہیں۔ نگہت داد کا کہنا ہے کہ ’ایسے چند ہی کیسز عدالت تک پہنچتے ہیں، اگر ایف آئی اے کے پاس متاثرہ خاتون کی شکایت درج ہو جاتی ہے اور ٹرائل شروع ہوتا ہے، تو دوسرا سوال جو سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا متاثرہ خاتون عدالتی کارروائی کے دوران خود کو محفوظ محسوس کر سکے گی۔ اس بات کو بھی یقینی بنانا ہو گا کہ سماعت کے معاملات میڈیا کی سرخیاں نہ بنیں اور عدالت کے سامنے پیش کیے جانے والے شواہد ٹھوس اور قابل اعتماد ہوں۔ جس کی وجہ سے خواتین انصاف کی جنگ لڑنے کے لیے آگے نہیں آنا چاہتیں۔‘ ’منصفانہ ٹرائل کا حق‘ ایف آئی اے تاہم، پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) ان الزامات اور متاثرہ خواتین کے خلاف کسی قسم کے امتیازی سلوک کی تردید کرتی ہے۔ ایجنسی کا کہنا ہے کہ وہ اس عمل کو مزید آسان بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ ایجنسی میں کئی برسوں میں درجنوں تقرریاں ہو چکی ہیں۔ لوگوں کو نئی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر تربیت بھی دی گئی ہے۔ سائبر کرائم ونگ کے ڈائریکٹر آپریشنز بابر بخت قریشی کا کہنا ہے کہ اس سب کے بعد بھی مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا کافی مشکل اور پیچیدہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’مقدمے میں جرم ثابت کرنے میں کافی وقت لگتا ہے۔ ہر کسی کو ملک کے آئین کے تحت منصفانہ ٹرائل کا حق حاصل ہے۔ لیکن اس میں چند سال لگتے ہیں۔‘ پاکستان میں ’الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا ایکٹ‘ 2016 میں نافذ ہوا اور 2019 سے لے کر اب تک صرف 27 ملزمان کو سزا سُنائی گئی ہے۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کچھ کیسز میں خواتین اپنی ذاتی نوعیت کی تصاویر کو سرکاری ریکارڈ کا حصہ نہیں بنانا چاہتیں۔ لہذا وہ ایف آئی اے اور عدالتوں تک رسائی نہیں کرتیں۔ ملک میں تقریباً 17 سائبر کرائم ونگز موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر شہری علاقوں میں کام کر رہے ہیں اور اب بھی ملک کے دیہی علاقوں میں بسنے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد تک ان کی رسائی ممکن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کا بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں کے ساتھ بھی کوئی ایسا معاہدہ نہیں ہے جس کے تحت وہ ملزمان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس تک رسائی حاصل کر سکیں۔ اور بعض اوقات ان کمپنیوں کی جانب سے ملزمان کے اکاؤنٹس تک رسائی میں مشکلات اور تاخیر بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی راہ میں حائل ہوتی ہیں۔ بابر بخت قریشی کے مطابق سائبر کرائم ونگ میں مزید خواتین کی تقرری کی جا رہی ہے اور تمام خواتین کو صنف کی بنیاد پر حساسیت برتنے کی تربیت دی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم ان خواتین کے لیے چیزیں آسان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہمارے پاس آ رہی ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنے لیے کھڑی ہوں، لیکن ہماری پوری کوشش کے باوجود وہ بعض اوقات پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں مجرم کو سزا دینا ناممکن ہو جاتا ہے۔‘