بچوں کی زندگی میں والدین اور اساتذہ کا کردار

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 12, 2017 | 07:29 صبح

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک): استاد محترم اخلاق بارے لیکچر دے رہے تھے کہ زبان دشمن کو بھی دوست بنا دیتی ہے اور دوست کو دُشمن‘ غصہ حرام ہوتا ہے ہر کسی سے پیار اور محبت سے پیش آنا چاہئے کسی کی دل شکنی نہیں کرنی چاہئے وہی بات جو ہم غصے میں کرتے ہیں۔ اچھے اخلاق سے بھی کی جاسکتی ہے، اس طرح کے دوسرے اخلاقی اور غصہ کو قابو میں رکھنے والے جملے بچوں کو سمجھا رہے تھے۔ لیکچر دینے کے بعد استاد نے طالب علموں کو ہوم ورک دیا،اتنے میں چھٹی کی گھنٹی بجی اور بچے قطار کی صورت میںکلاس روم سے باہر جانے لگے۔

>اگلے دن ٹیچر کلاس روم میں داخل ہوئے اوربچوں کو ہوم ورک چیک کروانے کو کہا ساری کلاس نے ہوم ورک کیا ہوا تھا سوائے ایک لڑکے کے۔ استاد نے اسے کچھ نہ کہا اور بیٹھ جانے کو کہا۔ دوسرے دن بھی معمول کے مطابق ہوم ورک چیک کیا گیا اور وہی ایک لڑکے کے سوا سب نے ہوم ورک کیا ہوا تھا۔استاد نے دوسرے دن بھی اسے کچھ نہ کہا۔ یہ عمل چار روز تک جاری رہا۔ صرف ایک لڑکے کے جوہوم ورک کر کے نہیں لاتا تھا۔ باقی سب لڑکوں نے ہوم ورک کیاہوتا۔ پانچویں دن معمول کے مطابق ہوم ورک چیک کیا گیاتو آج بھی اُسی لڑکے نے ہوم ورک نہ کیا تھا۔ استاد نے اس لڑکے کو اپنے پاس بلایا اور زوردار تھپڑ رسید کر دیا۔ لڑکا بوکھلا گیا اور استاد کے دیئے گئے لیکچر کے فقرے دہرائے۔ لڑکے نے کہا چاہئے تو یہ تھا کہ آپ مجھے پہلے دن ہوم ورک نہ کرنے کی وجہ پوچھتے اورمیں آپ کو وجہ بتاتا آپ نے پہلے دن کچھ نہ کہا دوسرے دن کچھ نہ کہا پھر ہوم ورک نہ کرنا میرا معمول بن گیا۔ لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے بھی قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہئے،بالخصوص اساتذہ جن کو روحانی باپ کا درجہ دیا گیا ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ استاد اور شاگرد کا کیا رشتہ ہے‘ استاد شاگرد کو فرش سے عرش تک پہنچاتا ہے جبکہ استاد اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک شاگرد یعنی طالب علم اپنے استاد محترم سے تعاون نہیں کرتا۔ ہر طالب علم پڑھنا چاہتا ہے۔ اگر وہ پڑھنے سے کتراتا ہے تو ضرور اس کی کوئی وجہ ہو گی زیادہ تر طالب علم تشدد اور ڈانٹ کی وجہ سے پڑھنا نہیں چاہتے۔رواں دور میں تشددکرنے پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے لیکن دیہی علاقوں میں یہ سلسلہ کم تو ہوا لیکن وہاں مکمل طور پر قابو نہیں پایا جا سکا، اساتذہ کو چاہئے کہ وہ اپنے طالب علموں کوڈانٹ وتشدد سے نہیں بلکہ پیار سے سمجھانے کی کوشش کریں کیونکہ ضرورت سے زیادہ ڈانٹ ڈپٹ اور ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار بھی بچوں میں بگاڑ پیدا کرتا ہے۔ ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ سے طالب علم نہ صرف اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے بلکہ بعض اوقات ڈانٹنے والوں سے متنفر بھی ہو جاتا ہے۔ کلاس روم میں اساتذہ طالب علموں سے سوالات کرتے ہیں اور صحیح جواب کی صورت میں طالب علم کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے جبکہ درست جواب نہ ہونے کی صورت میں بری طرح ڈانٹ دیتے ہیں۔ اساتذہ کو چاہئے کہ درست جواب کی صورت میں بچوں کی حوصلہ افزائی کریں اور جواب درست نہ ہونے کی صورت میں طالب علم کو پیار سے سمجھائیں۔اساتذہ کو روحانی باپ کا درجہ دیا گیا ہے۔ اکثر اساتذہ بچوں پر بری طرح تشدد کرتے ہیں ڈانٹ تو دور کی بات تشدد ایسا کہ خدا کی پناہ۔ دیہی علاقوں میں سکول کے اساتذہ کا خیال یہی ہے کہ بچے پیار کی زبان نہیں سمجھتے۔ انہیں اس لئے سمجھانا پڑتا ہے۔

ماضی میں بچوں پر تشدد کیا جاتا رہا آج سے چار دہائیاں قبل بچوں کی تعلیمی کارکردگی اتنی اچھی نہ تھی جو رواں دور میں ہے، وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ ماضی کے مقابلہ میں رواں دور میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن میں بچوں کو پیار سے سمجھانا سر فہرست ہے۔آج کل کے بچے کافی ذہین ہیں اور اتنے نمبر حاصل کر رہے ہیں کہ ایک نمبر سے پوزیشن تبدیل ہو جاتی ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق بچے پیار کی زبان سمجھتے ہیں۔ غیر ممالک میں بچوں پر ڈانٹ ڈپٹ کا تصور بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے بچوں میں خوداعتمادی بہت زیادہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بچے پیار کی زبان اچھی طرح سمجھتے ہیں۔

گھر کے ماحول کی بات کی جائے تو ضرورت سے زیادہ لاڈ اور پیار بچوں کو نہ صرف ضدی بلکہ خودسر بھی بنا دیتا ہے۔ موجودہ دور موبائل کا ہے۔ والدین کا بچوں سے لاڈ پیار اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ابتدائی عمر میں بچوں کی ہر جائز وناجائز خواہش پوری کر دیتے ہیں اتنی چھوٹی عمر میں مہنگا موبائل فون لا کر دینا عقلمندی نہیں۔ موبائل فون بچوں کی پڑھائی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ گھر بڑے بہن بھائی اور والدین بچوں کو کسی کام سے بلائیں تو جواب ہوں ہاں میں ملتا ہے۔ بچے موبائل میں اس قدر کھوئے ہوئے ہوتے ہیں کہ ارد گرد کی خبر نہیں ہوتی۔ ماہرین کے مطابق ضرورت سے زیادہ موبائل فون کے استعمال سے بینائی متاثر ہوتی ہے۔ چھوٹی سکرین پر اسے قریب سے دیکھنا اور دیکھتے ہی رہنا بینائی کے لئے اچھا نہیں۔

یہ بات درست ہے کہ تعلیم اور تفریح ساتھ ساتھ ہو تو پڑھنے لکھنے اور کھیلنے کا مزہ بھی دوبالا ہو جاتا ہے۔ رواں دور میں تفریح سکولوں کی حدتک محدود ہو کررہ گئی ہے۔ سکولوں میں سالانہ تقریبات کے موقع پر رسہ کشی‘ دوڑ کے مقابلے کرکٹ میچ اور ایسے کھیل شامل ہیں جس سے جسمانی ورزش بھی ہوتی ہے ، ظاہر ہے کہ جسمانی ورزش سے بچوں کی جسمانی و ذہنی نشوونما میں اضافہ ہوتا ہے۔ گھر اور سکول کے ماحول میں فرق ہوتا ہے۔ سکول میں بچے اپنی مرضی سے صرف اور صرف ہاف ٹائم کے وقت کھیل سکتے ہیں جبکہ زیادہ تر پڑھائی میں مصروف رہتے ہیں۔ جبکہ گھروں میں بچے اپنی پسند اور ٹائم ٹیبل کے مطابق کھیلتے ہیں‘ گلی محلے یا نزدیکی پارک میں اپنی من پسند کے کھیل کھیلتے ہیں۔ لیکن اب یہ سلسلہ بھی آہستہ آہستہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ پارکوں میں بچوں کا وہ رش دیکھنے کو نہیں ملتا جو ماضی میں دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ اب بچے زیادہ تر ٹیلی ویژن اور دوسرے غیر ضروری مشاغل میں دلچسپی لیتے ہیں۔بچے والدین کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں۔ والدین کو چاہئے کہ اپنی مصروفیت میں سے وقت نکال کر بچوں پر بھی توجہ دیں انہیں کھیل کود کے لئے پارکوں میں لے جایا جائے۔ ان کی تفریحی اور تعلیمی سرگرمیوں کا خاص خیال رکھا جائے کیونکہ بچے ملک و قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ ان کا ہر طرح سے خیال رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ والدین ان کی جائز فرمائش پوری کریں۔