بچوں کی زندگی میں والدین اور اساتذہ کا کردار
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع اپریل 12, 2017 | 07:29 صبح
![](https://dt4c98r2nr0yq.cloudfront.net/%3Cfunction%20upload_media_to%20at%200x7f9c5c03cb18%3E/2de4d682b3af46b3befe7a9804240ba5.jpg)
لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک): استاد محترم اخلاق بارے لیکچر دے رہے تھے کہ زبان دشمن کو بھی دوست بنا دیتی ہے اور دوست کو دُشمن‘ غصہ حرام ہوتا ہے ہر کسی سے پیار اور محبت سے پیش آنا چاہئے کسی کی دل شکنی نہیں کرنی چاہئے وہی بات جو ہم غصے میں کرتے ہیں۔ اچھے اخلاق سے بھی کی جاسکتی ہے، اس طرح کے دوسرے اخلاقی اور غصہ کو قابو میں رکھنے والے جملے بچوں کو سمجھا رہے تھے۔ لیکچر دینے کے بعد استاد نے طالب علموں کو ہوم ورک دیا،اتنے میں چھٹی کی گھنٹی بجی اور بچے قطار کی صورت میںکلاس روم سے باہر جانے لگے۔
ماضی میں بچوں پر تشدد کیا جاتا رہا آج سے چار دہائیاں قبل بچوں کی تعلیمی کارکردگی اتنی اچھی نہ تھی جو رواں دور میں ہے، وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ ماضی کے مقابلہ میں رواں دور میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن میں بچوں کو پیار سے سمجھانا سر فہرست ہے۔آج کل کے بچے کافی ذہین ہیں اور اتنے نمبر حاصل کر رہے ہیں کہ ایک نمبر سے پوزیشن تبدیل ہو جاتی ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق بچے پیار کی زبان سمجھتے ہیں۔ غیر ممالک میں بچوں پر ڈانٹ ڈپٹ کا تصور بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے بچوں میں خوداعتمادی بہت زیادہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بچے پیار کی زبان اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
گھر کے ماحول کی بات کی جائے تو ضرورت سے زیادہ لاڈ اور پیار بچوں کو نہ صرف ضدی بلکہ خودسر بھی بنا دیتا ہے۔ موجودہ دور موبائل کا ہے۔ والدین کا بچوں سے لاڈ پیار اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ابتدائی عمر میں بچوں کی ہر جائز وناجائز خواہش پوری کر دیتے ہیں اتنی چھوٹی عمر میں مہنگا موبائل فون لا کر دینا عقلمندی نہیں۔ موبائل فون بچوں کی پڑھائی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ گھر بڑے بہن بھائی اور والدین بچوں کو کسی کام سے بلائیں تو جواب ہوں ہاں میں ملتا ہے۔ بچے موبائل میں اس قدر کھوئے ہوئے ہوتے ہیں کہ ارد گرد کی خبر نہیں ہوتی۔ ماہرین کے مطابق ضرورت سے زیادہ موبائل فون کے استعمال سے بینائی متاثر ہوتی ہے۔ چھوٹی سکرین پر اسے قریب سے دیکھنا اور دیکھتے ہی رہنا بینائی کے لئے اچھا نہیں۔
یہ بات درست ہے کہ تعلیم اور تفریح ساتھ ساتھ ہو تو پڑھنے لکھنے اور کھیلنے کا مزہ بھی دوبالا ہو جاتا ہے۔ رواں دور میں تفریح سکولوں کی حدتک محدود ہو کررہ گئی ہے۔ سکولوں میں سالانہ تقریبات کے موقع پر رسہ کشی‘ دوڑ کے مقابلے کرکٹ میچ اور ایسے کھیل شامل ہیں جس سے جسمانی ورزش بھی ہوتی ہے ، ظاہر ہے کہ جسمانی ورزش سے بچوں کی جسمانی و ذہنی نشوونما میں اضافہ ہوتا ہے۔ گھر اور سکول کے ماحول میں فرق ہوتا ہے۔ سکول میں بچے اپنی مرضی سے صرف اور صرف ہاف ٹائم کے وقت کھیل سکتے ہیں جبکہ زیادہ تر پڑھائی میں مصروف رہتے ہیں۔ جبکہ گھروں میں بچے اپنی پسند اور ٹائم ٹیبل کے مطابق کھیلتے ہیں‘ گلی محلے یا نزدیکی پارک میں اپنی من پسند کے کھیل کھیلتے ہیں۔ لیکن اب یہ سلسلہ بھی آہستہ آہستہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ پارکوں میں بچوں کا وہ رش دیکھنے کو نہیں ملتا جو ماضی میں دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ اب بچے زیادہ تر ٹیلی ویژن اور دوسرے غیر ضروری مشاغل میں دلچسپی لیتے ہیں۔بچے والدین کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں۔ والدین کو چاہئے کہ اپنی مصروفیت میں سے وقت نکال کر بچوں پر بھی توجہ دیں انہیں کھیل کود کے لئے پارکوں میں لے جایا جائے۔ ان کی تفریحی اور تعلیمی سرگرمیوں کا خاص خیال رکھا جائے کیونکہ بچے ملک و قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ ان کا ہر طرح سے خیال رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ والدین ان کی جائز فرمائش پوری کریں۔