رولز روئس بھی رشوت دیتی ہے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 01, 2016 | 19:19 شام

بی بی سی اور برطانوی اخبار گارڈیئن کو ایسے نئے شواہد ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ رولز روئس بدعنوانی میں ملوث رہی ہے۔

بی بی سی کے پروگرام پینوراما کو معلوم ہوا ہے کہ کمپنی نے ایک زیرِ زمین اور غیر اندراج شدہ انڈین ایجنٹ کو خفیہ طور پر ایک کروڑ پاؤنڈ ادا کیے ہیں۔

پروگرام کو شواہد ملے ہیں کہ نقد رقم کی ادائیگی کے عوض رولز روئس کو ممکنہ طور پر ہاک نامی طیاروں کے انجن کا ٹھیکہ ملا تھا۔

رولز روئس کا کہنا ہے کہ اس کی رشوت اور بدعنوانی کے خلاف 'صفر برداشت' کی پالیسی

ہے۔

انڈیا میں دفاعی سودوں کے لیے کسی خفیہ درمیانی ایجنٹ کی خدمات حاصل کرنا غیرقانونی ہے، لیکن پینوراما کی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ رولز روئس نے اسلحہ ڈیلر سدھیر چوہدری کے ذریعے متعلقہ کمپنیوں کو رقوم ادا کی تھیں۔

سدھیر چوہدری انڈین حکومت کی بلیک لسٹ میں شامل ہیں اور ان پر 'بدعنوانی اور بےضابطگی' کا شبہ ہے۔

Image copyright ALPHA PRESS

Image caption سدھیر چوہدری انڈین حکومت کی بلیک لسٹ پر موجود ہیں

ناپسندیدہ افراد کی اس فہرست میں انڈین افسران اور حکومتی وزیروں کو خبردار کیا جاتا ہے کہ 'بےاصول' افراد سے کسی قسم کی سودے بازی کرتے وقت اضافی احتیاط سے کام لیا جائے۔

سدھیر چوہدری کے وکیلوں نے بی بی سی کو بتایا کہ 'انھوں نے کبھی بھی حکام کو رشوت نہیں دی اور نہ ہی دفاعی سودوں میں غیرقانونی مڈل مین کا کردار ادا کیا ہے۔'

سدھیر ارب پتی ہیں اور لندن میں رہتے ہیں۔ ایک تصویر میں انھیں وزیرِ اعظم ٹریزا مے سے ایک بزنس ایوارڈ وصول کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

وہ لبرل ڈیموکریٹ رہنما ٹم فیرن کے انڈیا کے بارے میں مشیر ہیں اور ان کے خاندان نے اس جماعت کو خیرات کی مد میں 16 لاکھ پاؤنڈ سے زائد کی رقم ادا کی ہے۔

Image caption انڈیا نے 123 ہاک طیارے خریدے تھے جن میں رولز روئس کے انجن نصب تھے

مشترکہ تحقیقات سے ایک مشتبہ نقد ادائیگی کے بھی شواہد ملے ہیں۔

اس میں سدھیر کے بیٹے بھانو ملوث ہیں، جو 2007 میں اسلحے کے ایک ایگزیکٹیو پیٹر جنجر کے ہمراہ سوئٹزرلینڈ گئے تھے۔

اس دورے میں جنجر نے ایک خفیہ بینک اکاؤنٹ میں لاکھوں ڈالر نقد جمع کروائے تھے۔

یہ اکاؤنٹ 'پورٹسمتھ' کے نام پر کھولا گیا تھا اور بی بی سی نے جو بینک دستاویزات دیکھی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں دس لاکھ سوئس فرانک سے زائد رقم کا بیلنس تھا۔

جنجر انڈین حکومت کو ہاک طیاروں کی فروخت میں اہم رابطہ کار تھے۔ ان تمام طیاروں میں رولز روئس کے بنائے ہوئے انجن نصب تھے اور اس سودے کی مالیت 40 کروڑ ڈالر پاؤنڈ کے لگ بھگ تھی۔

بھانو چوہدری کے وکیلوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے ہاک طیاروں کی فروخت سمیت کبھی بھی انڈیا کے ساتھ معاہدوں کے لیے پیسے نہیں دیے گئے۔

جنجر نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے کبھی بھی رولز روئس کے لیے کام نہیں کیا اور نہ ہی ان کے لیے مالیاتی سودوں میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔

2014 میں سدھیر اور بھانو دونوں کو رولز روئس کے معاملے میں دھوکہ دہی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم انھیں بغیر فردِ جرم عائد کیے چھوڑ دیا گیا تھا۔

رولز روئس نے کہا ہے کہ وہ 'حکام کے ساتھ مکمل تعاون' کر رہی ہے اور 'جاری تحقیقات پر تبصرہ نہیں کر سکتی۔'

رولز روئس کے برطانیہ میں 23 ہزار ملازم ہیں اور یہ تجارتی اور فوجی طیاروں کے لیے انجن تیار کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ کمپنی بحری جہازوں، تیل کی تنصیبات اور ریل گاڑیوں کے لیے بھی پرزے بناتی ہے۔

رولز روئس کا بین الاقوامی شہرت یافتہ گاڑیوں سے متعلق کاروبار 1973 میں طیاروں کے انجن بنانے والے حصے سے علیحدہ ہو گیا تھا، جس کے بعد اسے اس وقت کی کنزروٹیو حکومت نے دیوالیہ ہونے سے بچانے کی خاطر قومیا لیا تھا۔

1998 کے بعد سے رولز روئس برانڈ بی ایم ڈبلیو کی ملکیت ہے جو برطانوی کاؤنٹی سسکیس میں واقع قصبے گُڈوُڈ میں کاریں بناتی ہے۔

پینوراما کو برازیلی استغاثہ نے بتایا کہ رولز روئس پر برازیل میں بھی رشوت ستانی کا الزام ہے اور اس سلسلے میں تحقیقات جاری ہیں۔

الزام ہے کہ کمپنی نے ایک ٹھیکے کے لیے برازیلی کی سرکاری تیل کمپنی کو دس کروڑ پاؤنڈ بطور رشوت دیے تھے۔ کمپنی اس سے انکار کرتی ہے۔

 

بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ 30 سے زائد برطانوی تفتیش کار رولز روئس کے معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ اگر الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو کمپنی کو بھاری جرمانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ذمہ دار حکام کو جیل کی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

اس کے علاوہ امریکہ میں بھی رولز روئس کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔