بیرون ملک مقیم اس پاکستانی خاتون نے صرف گانا بجانا سیکھنے کے لیے انتہائی ماڈرن طریقہ استعمال کر ڈالا ، تفصیلات اس خبر میں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 16, 2017 | 04:19 صبح

لاہور (ویب ڈیسک) پاکستان اور افغانستان میں میوزک کے شنہشاہ کے طورپر شہرت رکھنے والا آلہ موسیقی رباب عام طورپر ایک مشکل فن سمجھا جاتا ہے لیکن حیران کن طور پر وقت کے ساتھ ساتھ اس کے سیکھنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جن میں اب خواتین بھی شامل ہوگئی ہیں۔شاید یہ واحد ساز ہے جس کا سیکھنا اور بجانا پشتونوں کے معاشرے میں برا بھی نہیں سمجھا جاتا لیکن خیبر پختونخوا میں اب اس فن کو سیکھنے کےلیے مزید آسان بنایا جارہا ہے۔ پشاور میں حال ہی میں رباب کی ایک ایسی اکیڈمی قائم ہوئی ہے جہاں اس

ساز کو آن لائن یعنی انٹرنیٹ کے ذریعے سے سکھایا جاتا ہے۔

پشاور کے خیبر سپر مارکیٹ میں واقع گل اکیڈیمی کے نام سے موسوم اس ادارے کو خیبر پختونخوا میں رباب کے نوجوان ماہر استاد گلاب خیل آفریدی نے قائم کیا ہے جہاں مردوں کے ساتھ ساتھ نوجوان خواتین بھی اس فن کو سیکھنے میں لگی ہوئی ہیں۔گلاب خیل آفریدی کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا اور فاٹا میں کچھ عرصے سے شدت پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر کے باعث موسیقی اور گلوکاروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا جس کی وجہ سے اس خطے کے کئی بڑے بڑے فنکار اور ہنرمند علاقہ چھوڑ کر بیرونی ممالک آباد ہوگئے۔انہوں نے کہا کہ چند سال پہلے تک صوبے میں ایسے حالات تھے کہ فن کار گھر سے باہر نہیں نکل سکتا تھا اور نہ کھلے عام موسیقی کے محفلوں میں شرکت کرسکتا تھا۔مگر وہ بتاتے ہیں کہ اب کچھ عرصہ سے صوبے میں پھر سے سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوتی جارہی ہے اور رباب اکیڈیمی کھولنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ پھر سے ثقافتی سرگرمیوں کو بحال کیا جاسکے۔

' پہلے میں آمنے سامنے بیٹھ کر کلاس روم میں رباب سیکھایا کرتا تھا لیکن پشاور اور ملک سے باہر رہنے والے بعض شاگردوں کے پرزور مطالبے پر اب میں نے آن لائن رباب سیکھانا شروع کیا ہے۔گلاب خیل آفریدی کے مطابق ملک کے مختلف شہروں اور بیرونی ممالک میں رہائش پزیر اپنے درجنوں شاگردوں کو وہ سکائپ، واٹس ایپ، فیس بک میسنجر یا ریگولر کال پر رباب سیکھاتے ہیں جس کے بہتر نتائج بھی مل رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کے زیادہ تر شاگرد پاکستان، خلیجی ممالک اور یورپ میں مقیم ہیں جس میں بعض خواتین بھی شامل ہیں۔ ' میری ایک خاتون شاگرد پنجابی ہیں اور انہیں رباب سیکھنے کا اتنا شوق ہے کہ وہ اس کےلیے پشتو زبان سیکھ رہی ہیں۔رباب بنیادی طورپر عربی زبان کا لفظ ہے جسکے معنی ہیں روح کا دروازہ۔ یہ عام طورپر شاتوت کے درخت سے بنتے ہیں۔ خیبر پختونخوا اور افغانستان رباب سازی کےلیے دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔گلاب خیل آفریدی نے مزید کہا کہ رباب دیگر آلات موسیقی کے مقابلے میں نہایت مشکل فن سمجھاجاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کے سیکھنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جارہی ہے اور شاید اسکی اس ساز کی وہ کشش ہے جو اسے دیگر آلات موسیقی سے ممتاز بناتی ہے۔

' رباب ایسا ساز ہے جو بذات خود ایک گلوکار کی حثیت بھی رکھتا ہے یعنی اگر اس کے ساتھ کوئی اور ساز اور گائیک بھی نہ ہوں تب بھی اسے اکیلے میں بجا کر یہ تمام سازوں کی کمی پورا کرسکتا ہے لیکن اس کےلیے شرط یہ ہے کہ بجانے والا ماہر ہو۔'

ایک سوال کے جواب میں گلاب خیل آفریدی نے کہا کہ پاکستان میں ان کے زیادہ تر شاگرد قبائلی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور وہاں اس ساز کے ساتھ محبت کرنے والے بھی زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ ملاکنڈ ڈویژن میں بھی رباب کے ماہر اور سیکھنے والے زیادہ ہیں