جنوبی کوریا ،دس لاکھ مظاہرین نے بلیو ہائوس کا گھیرائو کرلیا،صدر سے مستعفی ہونے کامطالبہ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 12, 2016 | 15:58 شام

 

جنوبی کوریا کی صدر پاک گن ہے کی جانب سے اپنی سہیلی کو سکیورٹی کلیئرنس نہ ہونے کے باوجود حکومتی دستاویزات دیکھنے کی اجازت دینے کے خلاف دارالحکومت سیول میں لاکھوں مظاہرین ان کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

مظاہرین کو صدارتی محل جانے سے روکنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔

صدر پاک گن ہے نے اپنی سہیلی چوئی سون سل کو سکیورٹی کلیئرنس نہ ہونے کے باوجود سرکاری دستاویزات دیکھنے کی اجازت دی تھی۔

 

/news/624/cpsprodpb/100B9/production/_92412756_83b93ecb-6833-48f1-a46e-fc982d47ae26.jpg" style="height:351px; width:624px" />

صدر پاک کا کہنا ہے کہ ان کو بہت دکھ ہے۔ یاد رہے کہ اس سکینڈل کی وجہ سے صدر پارک کی مقبولیت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

مظاہرے کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اس مظاہرے میں دس لاکھ افراد شامل ہیں جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین کی تعداد دو لاکھ 60 ہزار کے آس پاس ہے۔

صدر کی سہیلی چوئی سون سل دھوکہ دہی اور طاقت کے ناجائز استعمال کے الزامات میں زیر حراست ہیں۔ ان پر جنوبی کوریا کی کمپنیوں سے بھی بھاری رقم بٹورنے کے الزامات ہیں۔

ان کو پچھلے ہفتے گرفتار کیا گیا تھا۔

بی بی سی کے نامہ نگار سٹیفن ایونز کا کہنا ہے کہ اگرچہ مظاہرین پرامن ہیں لیکن نعرے بازی میں پچھلے ہفتے کے مقابلے میں شدت آئی ہے۔

مظاہروں کی توجہ کا مرکز صدر پاک گن ہے ہیں جن کا صدارتی محل کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے۔ اور اگر وہ محل میں موجود ہیں تو ان تک نعرے بازی کی آواز ضرور جا رہی ہو گی۔

 

صدارتی محل جس کو اس کی نیلی چھت کے باعث بلیو ہاؤس کہا جاتا ہے کے ارد گرد 20 سے 30 ہزار پولیس اہلکار تعینات ہیں۔ بلیو ہاؤس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں اور واٹر کینن بھی موجود ہے۔

نامہ نگار کا کہنا ہے کہ صدر کو اس وقت مجرمانہ مقدمات کا سامنا نہیں ہے لیکن ان کے قریبی افراد سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

صدر پاک نے اپنی سہیلی کو سرکاری دستاویزات تک رسائی دینے کی بات منظر عام پر آنے کے بعد معافی مانگی اور کہا کہ انھوں نے 'دوستی پر بہت اعتماد کیا اور اس بات پر دھیان ہی نہیں دیا کہ آس پاس کیا ہو رہا ہے'۔

انھوں نے کہا 'میری رات کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔ میں جانتی ہوں کہ میں جو کچھ بھی کر لوں میں عوام کا اعتماد دوبارہ حاصل نہیں کر پاؤں گی اور اسی لیے مجھے شرم آتی ہے۔'

صدر پاک کا کہنا ہے کہ جس کسی نہ بھی جرم کیا اس کو سزا ملے گی اور وہ اپنے آپ کو تفتیش کے لیے پراسیکیوٹرز کے سامنے حاضر ہونے کو تیار ہیں۔