مویشیوں سے میتھین کا اخراج کم کرنے کا آسان نسخہ دریافت

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 25, 2016 | 19:57 شام

سڈنی (شفق ڈیسک) انسانی سرگرمیوں کے باعث فضا میں شامل ہونیوالی میتھین میں سے 44 فیصد حصہ مویشیوں سے آتا ہے۔ کامن ویلتھ سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ آرگنائزیشن آسٹریلیا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مویشیوں کے چارے میں صرف 2 فیصد سمندری گھاس شامل کر دی جائے تو اس سے فضا میں میتھین کے اخراج میں 70 فیصد تک کمی کی جا سکے گی۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی طرح میتھین بھی ماحول کو گرمانے والی یعنی ’’گرین ہاؤس گیس‘‘ ہے لیکن اسکے اثرات کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں 36 گنا زیادہ ہیں۔ اسک

ا مطلب یہ ہے کہ اگر ہوا میں صرف ایک ٹن میتھین شامل ہو جائے تو اسکے گرمی پیدا کرنیوالے اثرات 36 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ جتنے ہونگے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ انسانی سرگرمیوں کے باعث ہر سال فضا میں شامل ہونیوالی میتھین گیس کا 44 فیصد حصہ مویشیوں سے خارج ہوتا ہے جسکی مقدار 3 ارب 10 کروڑ ٹن بنتی ہے۔ یعنی اگر کسیطرح مویشیوں سے میتھین کا اخراج 70 فیصد تک کم کر دیا جائے تو یہ عملاً ہر سال 2 ارب 70 کروڑ ٹن میتھین کو فضا میں داخل ہونے سے روکنے کے مترادف ہوگا۔ 2015ء میں آسٹریلوی ماہرین نے تجربات کے دوران معلوم کیا تھا کہ ’’سرخ الجی‘‘ کہلانیوالی ایک قسم کی سمندری گھاس (seaweed) سے فضا میں میتھین کے اخراج میں 99 فیصد کمی واقع ہوتی ہے۔ بعد ازاں اسی تحقیق کو آگے بڑھاتے ہوئے کوینز لینڈ، آسٹریلیا کی جیمس کُک یونیورسٹی میں ماہرین کی ایک ٹیم نے اسی سمندری گھاس کی صرف 2 فیصد مقدار مویشیوں (بھیڑ اور گائے) کے چارے میں شامل کی اور ان سے میتھین کے اخراج میں ہونیوالی تبدیلی کا جائزہ لیا۔ انہیں یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ سمندری گھاس کی اتنی معمولی مقدار سے میتھین کے اخراج میں 70 فیصد تک کمی واقع ہوئی تھی۔ سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ سرخ الجی میں ’’بروموفارم‘‘ (bromoform) نامی ایک مرکب موجود ہوتا ہے جو مویشیوں میں اندرونی طور پر میتھین گیس کے بننے میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ اب ان دریافتوں کی بنیاد پر آسٹریلیا میں وسیع پیمانے پر تجربات کی تیاری کی جارہی ہے جن کے بعد میتھین کے اخراج میں کمی کا حتمی فیصلہ کیا جائیگا۔ توقع ہے کہ یہ تجربات آئندہ برس شروع کردیئے جائینگے۔ بتاتے چلیں کہ جامعہ کراچی میں ’’آفس آف ریسرچ، انوویشن اینڈ کمرشلائیزیشن‘‘ (ORIC) میں پروفیسر ڈاکٹر عالیہ رحمان کی سربراہی میں سمندری گھاس کے تجارتی اور صنعتی استعمال کو فروغ دینے کا ایک منصوبہ کامیابی سے جاری ہے جسے مذکورہ دریافتوں کی روشنی میں مزید وسعت دی جاسکتی ہے۔