لاہور میں قتل ہونے والے پی پی رہنماء بابر بٹ کا گھرانہ کیسا تھا؟ جان کر آپ کے بھی ہوش اڑ جائیں گے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 14, 2017 | 17:56 شام

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) پیپلز پارٹی کے مقتول رہنما بابر سہیل بٹ کا والد محمد سلیم بٹ سکول ٹیچر تھا، مقتول 16 سالہ نوعمر لڑکا تھا کہ اس کی گھریلو جھگڑے پر (لڑکی کو چھیڑنے پر) قریبی رشتہ دار نورا کشمیری کے ساتھ دشمنی کا آغاز ہوا۔اس دشمنی کے نتیجہ میں بابر سہیل بٹ نے نورا کشمیری کو قتل کیا، جس کے ساتھ ہی بابر سہیل بٹ کو جیل جانے کے دوران بدمعاش کا لقب ملا، اس دوران نورا کشمیری گروپ اور بابر بٹ گروپ الگ الگ دو طاقتیں بن گئیں، جس کے ساتھ ہی نورا کشمیری گروپ نے بدلے میں بابر سہیل بٹ کے والد سلیم

بٹ اور بڑے بھائی کو قتل کیا، جس کے بعد علاقے کی مختلف سیاسی طاقتیں ، قبضہ گروپ کے ارکان، مقامی پولیس کے افسران کی دونوں گروپوں کو الگ الگ پشت پناہی شروع ہو گئی۔ ایک معروف انسپکٹر نے ایک معروف اداکارہ کے سر کے بال کاٹے تو اس بابر سہیل بٹ نے اس معروف اداکارہ کی حمایت کی جس میں بابر سہیل بٹ کی بدمعاشی چمکی۔ اس دوران پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے گھرکی خاندان کی مسلم لیگ (ن) کے سہیل شوکت بٹ خاندان کے ساتھ سیاسی مخالفت میں بھی دونوں گروپوں کی جنگ کو تیز کیا۔ جس میں سابق وفاقی وزیر ثمینہ گھرکی کے انتہائی قریبی سیاسی ورکروں میں بابر سہیل بٹ کا نام لیا جانے لگا جس پر بابر سہیل بٹ کو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑوایا گیا، اس دوران علاقہ میں قبضہ گروپ مافیا اور سیاسی دنگل یا پرانی دشمنیوں ، جس انداز سے بھی دیکھا جائے بابر سہیل بٹ کو دن بدن شہرت مل رہی تھی۔ نورا کشمیری گروپ کی مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے ایک ایم این اے حمایت کرنے لگا جس پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی آپس میں مخالفت میں رنگ بھرا ۔ جہاں نورا کشمیری گروپ اور بابر سہیل بٹ گروپ کی ذاتی دشمنی کے دوران ایک درجن کے قریب افراد موت کی بھینٹ چڑھے وہاں مقامی دونوں سیاسی دھڑوں (پیپلز پارٹی اور ن لیگ) کی آپس میں دشمنی کی اس جنگ میں تیزی آئی اور پیپلز پارٹی کے اقتدار ختم ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کا اقتدار آنے سے بابر سہیل بٹ سیاسی طور پر بھی کمزور ہو کر رہ گیا تھا۔مقامی پولیس ہو یا کوئی سیاسی درگاہ، زمینوں کا قبضہ ہو یا سوئی گیس کا جعلی نیٹ ورک ، تمام سیاسی و سماجی ایشوز میں پولیس نے بابر سہیل بٹ سے ہاتھ کھینچ لیا۔ پولیس انسپکٹر سے لے کر ایس پیز تک دوستی کے بڑے بڑے دعوے کرنے والوں نے بابر سہیل بٹ کو ٹالنا شروع کر دیا۔ جبکہ اس کے خلاف مناواں پولیس کے ایک انسپکٹر نے ایک سابق ایس پی کینٹ کے کہنے پرتھانہ مناواں میں دہشت گردی کی دفعات سمیت سنگین نوعیت کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس مقدمہ کے درج ہونے کے بعد تیسرا گروپ (آصف جٹ گروپ) سامنے آیا جس کو مقامی مسلم لیگ (ن) کی اہم شخصیت کی مکمل حمایت حاصل ہے اور انہوں نے بابر سہیل بٹ کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کا ایک سیاسی دفتر بھی بنا لیا۔ جٹ گروپ کے آصف جٹ کا والد بھی اسی دشمنی میں قتل ہو گیا جس میں الزام لگایا گیا کہ آصف جٹ کے والد کو بابر سہیل بٹ کے ایماء پر قتل کیا گیا۔ آج جب بابرسہیل بٹ کا قتل ہوا ہے تواس میں بھی بات سامنے آئی ہے کہ اسے بھی مسلم لیگ (ن) کے مقامی رہنما کی ایماء پر قتل کیا گیا ہے، جبکہ مسلم لیگ (ن) کے مقامی رہنما نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔ اور اس قتل کو اپنے سر لینے سے منع کیا ہے۔