سانحہ سرگودھا: 20 افراد کے قاتل گجر پیر کے بارے میں دھماکہ خیز انکشافات ہوگئے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 02, 2017 | 07:38 صبح

سرگودھا (ویب ڈیسک) سرگودھا کے نواحی گاﺅں چک نمبر 95 شمالی پکا ڈیرہ میں دربار کی گدی نشینی کے تنازعہ پر مخالف گروپ کے 20 افراد کو ڈنڈوں، خنجروں کے وار کر کے قتل کر دیا گیا۔ ملزم عبدالوحید اور اس کے ساتھیوں نے نعشوں کی بے حرمتی بھی کی۔ ہلاک ہونے والوں میں ڈی ایس پی شبیر گجر کا بیٹا بھی شامل، پولیس کے مطابق دربار کے گدی نشین پیر عبدالوحید نے 24 گھنٹے کے دوران اپنے مریدوں کو دو، دو تین، تین کر کے اپنے 2 ساتھیوں کی مدد سے قتل کیا۔ سفاک پیر پہلے مرید کو نشہ آور چیز کھلاتا او

راس کے بعد برہنہ کرکے اس کے کپڑوں کو جلاتا اور ایک مخصوص مقام پر جا کر انہیں ڈنڈے اور خنجر مار مار کر قتل کر دیتا۔ واقعہ میں 3 زخمیوں میں سے ایک زخمی کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔ پولیس نے ملزم اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا جنہوں نے اعتراف جرم کر لیا۔ قتل ہونے والوں میں سائیں جمیل‘ زاہد ملنگ‘بابر‘ جاوید‘ خالد جٹ‘ نصرت بی بی‘ فرزانہ بی بی‘ ندیم‘ محمدحسین‘ شازیہ‘ اشفاق‘ شاہد‘ سیف الرحمان‘ آصف‘ گلزار‘ ساجد‘ رخسانہ اور نعیم شامل ہیں جبکہ زخمی ہونے والوں میں کشمور بی بی‘ مریم بی بی‘ کاشف اور توقیر شامل ہیں۔ قتل کئے گئے11افراد کا تعلق سرگودھا، 2 کا اسلام آباد، 2 لیہ، ایک کا میانوالی، جب کہ ایک شخص کا تعلق پیر محل سے ہے، ایک خاتون کی شناخت نہیں ہو سکی واقعہ میں جاںبحق ہونے والے6 افراد کا تعلق ایک جبکہ 5 کا تعلق خاندان سے ہے۔ مقتولین میں پیر علی احمد گجر کا بٹیا اور دربار کا متولی بھی شامل ہیں۔ سرگودھا کے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) لیاقت چٹھہ نے بتایا کہ واقعہ کی اطلاع ڈی ایچ کیو ہسپتال سرگودھا میں آنے والی ایک زخمی خاتون نے دی تھی۔جودرگاہ سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھے۔ ڈی سی سرگودھا کے مطابق عبدالوحید گجر مریدین کو نشہ آور جوس پلا کر بےہوش کرتا اور پھر انہیں برہنہ کرکے ڈنڈے اور خنجر کے وار سے ان کو تشدد کا نشانہ بناتا تھا یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوجاتے اور بعد ازاں ان کی نعشوں کو ایک کمرے میں جمع کرتا رہا۔ زخمی خاتون نے بتایا کہ واردات کے دوران بچوں نے خوف زدہ ہو کر چیخنا چلانا شروع کیا تو لوگوں نے عبدالوحید اور اس کے ساتھیوں کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ موقع سے فرار ہوگیا۔ پولیس کے مطابق ملزم جنونی اور نفسیاتی ہوسکتے ہیں۔ قریبی دیہات کے رہائشیوں نے متولی کی ذہنی حالت خراب ہونے کے حوالے سے خبروں کی تردید کی ہے۔ بی بی سی کے مطابق تھانہ صدر سرگودھا میں ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار احسان نے بتایا کہ ان افراد کو قتل کرنے کا سلسلہ جمعہ کی رات سے شروع ہوا تاہم پولیس کو ہفتہ کی شب اطلاع ملی۔ دورانِ تفتیش ملزم نے پولیس کو بتایا کہ مریدوں کو اس شک میں قتل کیا کہ وہ پیر علی احمد گجر کو زہر دینے کی سازش کا حصہ تھے۔ ڈپٹی کمشنر سرگودھا کے مطابق عبدالوحید مریدوں پر تشدد کر کے کہتا تھا کہ ان کا جسم پاک ہونے لگا ہے۔ ادھر مقامی افراد نے بتایا کہ عبدالوحید مہینے میں ایک دو بار درگاہ پر آتا تھا، پولیس ترجمان کے مطابق ملزم عبدالوحید اور پیر علی محمد گجر کے خاندان میں گدی نشینی کا تنازع چل رہا تھا اور اسی سلسلے میں عبدالوحید نے جرگہ بلایا ہوا تھا جس میں اس نے اپنے پیر علی محمد گجر کے بیٹے کو اسلام آباد سے خصوصی طور پر مدعو کر رکھا تھا۔ ترجمان کے مطابق مقتول آصف کا تعلق فیصل آباد سے تھا اور وہ قاتل عبدالوحید کے پیر علی محمد گجر کا اکلوتا بیٹا تھا، آصف اسلام آباد پولیس کا ملازم اور پولیس لائن ہیڈ کواٹر میں تعینات تھا جب کہ طبی بنیاد پر 25 اپریل تک رخصت پر تھا، آصف وزیراعظم سیکرٹریٹ کے سکواڈ میں بھی تعینات رہ چکا تھا۔ پولیس حکام کے مطابق پوسٹ مارٹم کے بعد تصدیق ہوئی ہے کہ قتل ہونے والوں میں اسلام آباد کے رہائشی 2 بھائی ساجد اور ندیم اپنی والدہ اور بہن کے ہمراہ جرگے میں شرکت کے لئے گئے لیکن قاتل کا نشانہ بن گئے۔ ساجد اور ندیم آئی نائن اسلام آباد میں دکاندار تھے اور مقتول آصف کے رشتہ دار تھے۔ صوبائی وزیر ترجمان پنجاب حکومت زعیم قادری نے کہا ہے کہ دربار محکمہ اوقاف اور حکومت پنجاب کے زیرانتظام نہیں دو سال قبل بنایاگیا تھا‘ تفتیش جاری ہے کہ یہ دربار کس کی اجازت سے تعمیر ہوا۔ پنجاب میں کسی جعلی پیر اور تعویز گنڈا کرنے والوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ زعیم قادری نے سول ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی۔ واقعہ کی ایف آئی آر درج کرنے کے بعد سیل کر دی۔ قتل سمیت دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے قتل ہونے والوں کے لواحقین کیلئے 5لاکھ فی کس جبکہ زخمیوں کو 2دو لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعلیٰ کی جانب سے ڈی آئی جی سرگودھا ذوالفقار حمیدکی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دیدی گئی جو اپنی رپورٹ مرتب کرکے دے گی۔ پولیس نے دربار کے متولی محمد یوسف‘ عبدالوحید اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا اور دربار کے اردگرد سرچ آپریشن شروع کر دیا۔قتل ہونے والے سرگودھا کے تمام رہائشیوں کو سپردخاک کر دیا گیا جبکہ دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے افراد کی نعشیں ان کے آبائی گھروں کو پہنچا دی گئیں۔ صدر مملکت، وزیراعظم سمیت سیاسی ومذہبی شخصیات نے واقعہ پرگہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ خاتون کا مزید کہنا تھا کہ ملزم اپنے مریدوں کو فون کرکے بلاتا تھا اور ایک ایک کرکے ان کو کمرے میں بلا کر قتل کرتا رہا۔ زعیم قادری نے کہا کہ انکوائری کمےٹی کی رپورٹ سے عوام اور مےڈےا کو باخبر رکھا جائے گا۔ قتل ہونے والے افراد میں 19 کی نعشیں دربار جبکہ ایک کھیتوں سے ملی۔ مقتولین کی پوسٹمارٹم رپورٹس کے مطابق کچھ 12 گھنٹے پرانی ہیں جبکہ کچھ نعشیں دو سے تین روز پرانی ہیں۔ آر پی او سرگودھا نے ایس ایس پی بلال افتخار کی سربراہی میں چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ دربار کے اطراف میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے پنجاب حکومت کو ابتدائی رپورٹ بھجوا دی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ واقعہ نہ کسی دشمنی کا نتیجہ ہے اور نہ ہی کوئی قبضہ کا تنازعہ ہے۔ واقعہ صریحاً توہم پرستی اور جہالت کا نتیجہ ہے۔ دربار کے گدی نشین کا سارا کیا دھرا ہے۔ وقفہ وقفہ سے جو شخص دربار پر آتا تھا۔ اس کو دربار کے آخری حصہ میں لے جایا جاتا تھا اور اس پر تشدد کیا جاتاتھا۔ سر پر ڈنڈے مارے جاتے تھے اور جسم کے مختلف حصوں پر خنجر چلائے جاتے تھے اور اس کے نتیجے میں اس شخص کی موت واقع ہو جاتی تھی۔ پھر اس کی نعش کو اٹھا کر دوسرے کمرے میں منتقل کر دیا جاتا تھا۔ رپورٹ کے مطابق دربار نہ محکمہ اوقاف کے پاس باقاعدہ ریکارڈ کا حصہ ہے اور نہ ہی کسی اور جگہ اس کی رجسٹریشن ہے۔ پولیس کے مطابق ملزم عبدالوحید الیکشن کمشن کا ریٹائرڈ ملازم ہے۔ ملزم آصف ایڈووکیٹ پھالیہ اور ظفر ڈوگر خانقاہ ڈوگراں کا رہائشی ہے۔ ملزم عبدالوحید اور ظفر ڈوگر کا ابتدائی بیان بھی ریکارڈ کر لیا گیا ہے۔ عبدالوحید کا کہنا تھا کہ مقتولین نے میرے پیر کو زہر دے کر قتل کیا تھا‘ مجھے بھی مارنا چاہتے تھے۔ پولیس کے مطابق مقتولین میں مقامی زمیندار سیف الرحمان‘ اس کی بیوی‘ 2 بہنیں اور 2 بھائی بھی شامل ہیں۔ مقتولین میںوینا ملک کے شوہر اسد خٹک کا بھانجا بھی شامل ہے۔