سعودی عرب کویمن کے ساتھ جنگ بندی پرکیوں مجبور ہونا پڑا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 17, 2016 | 17:46 شام

 

ریاض(مانیٹرنگ)سعودی وزیرخارجہ عادل الجبیر نے کہا ہے کہ ان کا ملک یمن میں جنگ بندی پر اتفاق کے لیے تیار ہے لیکن ساتھ ہی انھوں نے یمن میں قیام امن کے حوالے سے کوششوں پر اپنی مایوسی کا اظہار کردیا ہے کیونکہ ان کے بہ قول ماضی میں یمن میں قیام امن کے لیے متعدد کوششیں ناکامی سے دوچار ہوچکی ہیں۔

عادل الجبیر کا کہنا ہے کہ سعودی عرب یمن میں جاری تنازعے میں انسانی قوانین کی پاسداری میں بہت محتاط ہے اور صنعا میں ایک ہال میں جنازے کے شرکاء پر بمباری کے ذمے داروں کو سزا دی

جائے گی۔مقتولین اور مجروحین کو معاوضہ دیا جائے گا۔

امریکا اور برطانیہ نے اتوار کو یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی شیعہ باغیوں اور صدر عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت کے درمیان فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا۔سعودی وزیر خارجہ نے اسی کے ردعمل میں یہ بیان جاری کیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے لندن میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ اگر یمن کے متحارب فریق جنگ بندی کو قبول کرتے اور اس کے لیے آگے بڑھتے ہیں تو پھر اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسماعیل ولد شیخ احمد اس سلسلے میں تفصیل طے کریں گے اور یہ اعلان کریں گے کہ اس پر کیسے اور کب عمل درآمد کا آغاز کیا جائے گا؟