نوعمر لڑکے لڑکیاں ایک گھنٹے میں کتنی مرتبہ جنسی عمل کے بارے میں سوچتے ہیں؟ جدید تحقیق میں سائنسدانوں نے سب کے ہوش اڑا دئیے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 06, 2017 | 20:53 شام

نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) سن بلوغت کو پہنچ کر لڑکے لڑکیوں کا جنسیت کی طرف راغب ہونا فطری ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ نوعمر لڑکے لڑکیاں دن میں کتنی بار جنسی عمل کے بارے میں سوچتے ہیں؟ سائنسدانوں نے اپنی اس تحقیق میں ایسا جواب دے دیا ہے کہ جان کر ماں باپ کے ہوش اڑ جائیں گے۔میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے تحقیقاتی نتائج میں بتایا ہے کہ بالغ لڑکے اور لڑکیوں کے ذہن میں ہر 6سیکنڈ بعد جنسیت (سیکس)کا خیال آتا ہے۔ چنانچہ لڑکے لڑکیوں کا ذہن ایک گھنٹے میں 600مرتبہ اور دن میں جتنی دیر وہ بیدار

رہتے ہیں اس عرصے میں لگ بھگ 9ہزار بار ان کا ذہن جنسیت کی طرف راغب ہوتا ہے۔ان میں جنسیت کی طرف اس قدر راغب ہونے کی وجہ ان میں ہارمونز کی انتہائی بلند سطح ہوتی ہے۔ بالغ لڑکے لڑکیوں کے ذہن جنسی ہارمونز ایسٹروجن اور ٹیسٹاسٹرون سے لبالب بھرے ہوتے ہیں کیونکہ سن بلوغت کو پہنچ کر ان میں یہ ہارمونز بچپن اور لڑکپن کی نسبت 50گنا زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔یہ ہارمونز ان کے مزاج میں لمحہ بہ لمحہ تبدیلیوں کی وجہ بن سکتے ہیں اور اس کی وجہ ان کے دماغ کے کیمیکل توازن کا بگڑنا ہے۔

سائنسدانوں نے اپنی اس تحقیق میں بچوں پر والدین کی ڈانٹ ڈپٹ کا اثر نہ ہونے کا حیران کن سبب بھی بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”جب والدین بچوں کو ڈانٹتے ہیں توبچوں کے دماغ کا کیمیکل توازن بگڑجاتا ہے اور ان کا ذہن بند ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اس دوران والدین کے سامنے سُن ہو کر کھڑے رہتے ہیں۔ہاورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس تحقیق میں 32نوجوان لڑکے لڑکیوں پر تجربات کیے۔ انہوں نے نوجوانوں کے دماغوں کے ساتھ سکینر لگائے اور ان کو ان کی ماﺅں کی ڈانٹ ڈپٹ پر مبنی آڈیو سننے کو کہا۔ سائنسدانوں نے دیکھا کہ یہ آڈیو سنتے ہوئے ان نوجوانوں کے دماغ کے وہ حصے زیادہ متحرک ہو گئے جو منفی جذبات پیدا کرتے ہیں جبکہ وہ حصے مکمل طور پر بند ہو گئے جو جذبات کو کنٹرول کرتے ہیں۔تحقیقاتی ٹیم کی رکن ڈاکٹر انیتا کا کہنا تھا کہ ”نوجوانوں میں باتوں کو اپنے ذہن میں تادیر محفوظ رکھنے کی صلاحیت اتنی زیادہ نہیں ہوتی لہٰذا جب والدین انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں تو درحقیقت وہ پندونصائح ایک کان سے اندر داخل ہوتے ہیں اور دوسرے کان سے نکل جاتے ہیں۔“