سکاٹ لینڈ یارڈ بمقابلہ تھانہ کوتوالی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 10, 2016 | 13:48 شام

تحریر: میاں عمران احمد

کہانی16ستمبر2010سے شروع ہوتی ہے ڈاکٹر عمران فاروق شام 5بج کر25منٹ پر مل ہل میں برطانوی حکومت کی طرف سے سیاسی پناہ گزینوں کو دیے گئے اپنے گھر میں داخل ہو رہے تھے کہ محسن علی سید اور کاشف خان کامران نے ان پر اینٹوں اور چھریوں سے حملہ کر کے قتل کر دیا۔ قتل کے بعد سری لنکافرارہو گئے اور وہاں سے پاکستان پہنچے ۔ائیر پورٹ پر دونوں حکومت کے ہاتھ لگ گئے اور حکومت نے انہیں نا معلوم مقام پر منتقل کر دیا ان کی گرفتاری سے ایم کیو ایم میں ہل چل مچ گئی اُ س وقت ملک میں پاکستان

پیپلز پارٹی کی حکومت تھی حکومت ان دونوں لڑکوں کو بنیاد بنا کر ایم کیو ایم کو بلیک میل کرتی رہی اور اپنی باتیں منواتی رہی ۔لندن میں قتل کے بعد پولیس موقع واردات پر پہنچی ،شواہداکٹھے کیے تو تمام تانے بانے الطاف حسین سے ملنے لگے اورسکاٹ لینڈ یارڈ نے الطاف حسین سے پوچھ گچھ شروع کر دی۔

تفتیش معمول کے مطابق چل رہی تھی کہ 6دسمبر2012کو وقت نے کروٹ لی اور الطاف حسین کے گھر کی تلاشی کے دوران 6لاکھ پاﺅنڈ کیش ،اسلحہ کی رسیدیں اور جائیداد کے کاغذات برآمد ہوگئے ۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے ثبوت ملے اور اس کے انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ نے الطاف حسین سے متعلق منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات شروع کر دیں ۔یہاں سے سکاٹ لینڈ یارڈ کا اصل امتحان شروع ہو ا۔ پولیس نے تمام بینک سٹیٹ منٹس ،لیجرز بکس آف اکاﺅنٹس اور رسیدیں اپنی تحویل میں لے لیں سکاٹ لینڈ یارڈ کا اکاﺅنٹس ونگ بینک سٹیٹ منٹس میں ہونے والی ٹرانزیکشنز دیکھ کر سکتے میں آ گیا ،برطانیہ میں تمام بڑی ٹرانزیکشن کراس چیک یا اکاﺅنٹ ٹرانسفر کے ذریعے ہو تی ہیں لیکن الطاف حسین کی زیادہ تر ٹرانزیکشن کیش میں تھیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ لندن میں کیش غیر قانونی طریقہ سے آیا اور اس پر کوئی ٹیکس جمع نہیں کروایا گیااور جب الطاف حسین سے ثبوت مانگے گئے تو وہ نئی نویلی دلہن کی طرح شرما کر کہتے رہے کہ مجھے کچھ علم نہیں یہ تو جو لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں ان کے پیسے ہیں ۔

لندن پولیس کو یہ بات ہضم نہ ہوئی اور انہوں نے 3جون 2014کو الطاف حسین کو گرفتار کر لیایہاں اس بات کا ذکر کرنازیادہ ضروری ہے کہ عمران فاروق کو قتل ہوئے تقریباََ4سال گزر چکے تھے اور سکاٹ لینڈ یارڈ ابھی تک مجرموں کا پتا نہیں لگا سکی تھی ۔بہر حال 4دن تفتیش کے بعد الطاف حسین کو 7جون 2014کو رہا کر دیا گیا اسی دوران پولیس نے سرفراز مرچنٹ او ر محمد انور کو بھی شامل تفتیش کر لیاتفتیش چلتی رہی اور پھر ذلت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا الطاف حسین کو پولیس اسٹیشن بلایا جاتا، گھنٹوں بٹھایا جاتا، سوالات پوچھے جاتے اور ثبوت تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ۔تفتیش خرگوش کی چال چل رہی تھی کہ اچانک اپریل 2015میں محمد انور اور سرفراز مرچنٹ نے سکاٹ لینڈ یارڈ کے سامنے اعتراف جرم کر لیا کہ" ایم کیو ایم پاکستان میں دہشت گردی کیلئے بھارتی حکومت اور راءسے فنڈنگ لیتی رہی ہے" پولیس نے دونوں کی اعترافی ویڈیوبنائیں،تحریری بیان لیا اور بعد ازاں وہ کاغذات میڈیا میں لیک ہو ئے اور سکارٹ لینڈ یارڈ نے ان کے اصلی ہونے کی تصدیق بھی کر دی۔جب حالات ذلت کی انتہا تک پہنچے تو مبینہ طور پر ویڈیو بیان ریکارڈ کروا دیا اور اس میں را سے فنڈنگ لینے اور پاکستان میں دہشت گردی کا اعتراف کر لیااسی دوران حکومت پاکستان نے عمران فاروق قتل کے ثبوت کے طور پر محسن اور کاشف کو سکاٹ لینڈ یارڈ کے سامنے پیش کر دیا انہوں نے الطاف حسین کے کہنے پر عمران فاروق کے قتل کا اعتراف بھی کر لیا۔ 
اب آپ صورت حال ملاحظہ کریں کہ اعترافی بیانات بنک سٹیٹ منٹس ،اسلحہ کی رسیدں اور غیر قانونی پانچ لاکھ پاﺅنڈز کی شکل میں منی لانڈرنگ کے ثبوت سکاٹ لینڈ یارڈ کو مل چکے تھے لیکن پھر بھی سکاٹ لینڈ یارڈ نے نجانے کس ثبوت کی تلاش جاری رکھی اوران تمام شواہد کے باوجود سکاٹ لینڈ یارڈ نے فروری 2016میں ناکافی ثبوت کی بنا پر الطاف حسین اور اس کے ساتھیوں کی بیل کنڈیشن ختم کر دی اس پورے پراسس میں الطاف حسین کو پانچ مرتبہ ضمانت میں توسیع بھی دی گئی اور پھر یہاں تک کے 13اکتوبر2016آ گیا اور دنیا کی آزاد اور بااثر ترین پولیس نے ناکافی ثبوت ہونے کی بنا پر الطاف حسین اور اس کے ساتھیوں پر منی لانڈرنگ کا کیس ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا۔سکاٹ لینڈ یارڈ نے الطاف حسین اور اس کے ساتھیوں کو دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے تمام ثبوتوں کے باوجود اس کیس میں مکھن میں سے بال کی طرح کیسے نکال دیا یہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے اور اس داستان کو پڑھنے کے بعد آپ کو یقینا تھانہ کوتوالی سکاٹ لینڈ یارڈ سے بہتر نظر آئے گا ۔
سکاٹ لینڈ یارڈ کا انسداد دہشت گردی کا محکمہ الطاف حسین کیخلاف منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات کر رہا تھابرطانوی قانون کے مطابق انسداد دہشت گردی کا محکمہ انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت تحقیقات کرتا ہے ۔مثال کے طور پر2008میں برطانوی عدالت نے چھ افراد کو غیر ملک میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے الزام میں انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت سزا سنائی ۔2014میں ایک خاتون اور اس کے ایک سالہ بچے کو داعش کی معاونت کے صرف شک پر اسی قانون کے تحت سزا سنائی اور یہاں تک کے ایک لڑکے کو فیس بک پر متنازعہ تصویر لگانے کے جرم میں انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت سزا سنائی گئی۔لیکن الطاف حسین پر دہشت گردی کے تمام ثبوتوں کے باوجود انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت کیس کی تفتیش کرنے کی بجائے Proceed Of Crime Act 2002کی دفعات327،328اور329کے تحت کی گئی آپ یہ جان کر حیران ہوں گے اور شائد غش کھا کر گر بھی پڑیں کہ شق نمبر 327مجرمانہ جائیداد کو چھپانے ،328مجرمانہ جائیداد کے استعمال اور 329مجرمانہ جائیداد کے حصول سے متعلق ہے ۔اب آپ اس تمام صورت حال کو سامنے رکھیں اور سوچیں کہ اگر ایک برطانوی خاتون کو صرف شک کی بنا پردہشت گردی کی دفعات کے تحت سزا ہوسکتی ہے، اگر آٹھ لوگوں کو بیرون ملک عوام کو فورسز کیخلاف اکسانے پر اسی کے قانون کے تحت سزا ہو سکتی ہے تو الطاف حسین پر یہ سارے الزامات ثبوت کے ساتھ موجود ہونے کے باوجود بھی دہشت گردی کے قوانین کے تحت تفتیش کیوں نہیں ہو سکتی تھی ۔
آپ ان حقائق کوسامنے رکھیں اور اس کا موازنہ پاکستان کے تھانہ کوتوالی سے کریں آپ کو یقینا پاکستانی ہونے پر فخر ہوگا آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں اگر یہ کیس تھانہ کوتوالی میں ہوتا اور جو ثبوت سکاٹ لینڈ یارڈ کے پاس ہیں ان میں سے صرف آدھے ثبوت تھانہ کوتوالی کے ایس ایچ او کے پاس ہوتے تو کیا صرف 12گھنٹوں میں مجرم سلاخوں کے پیچھے نہ ہوتا ؟کیا ایس ایچ او صرف چند گھنٹوں میں مجرم کو دوزخ کی سیر نہ کروا دیتا ؟؟کیا مجرم کو صرف چند منٹوں میں دن میں تارے اور رات کو سورج نہ دکھائی دیتا ؟
تھانہ کوتوالی میں جرم ثابت کرنے کیلئے صرف ایک گواہی کافی ہوتی ہے لیکن اگر سکاٹ لینڈ یارڈ کیلئے محمد انور ،سرفراز مرچنٹ کے لکھے ہوئے اقبالیہ بیان اور گھر سے ملنے والے دستاویزات اور چھ سالوں کی تفتیش الطاف حسین کو گرفتار کرنے کیلئے ناکافی ہیں تو عظیم برطانیہ کی عظیم پولیس سے بہتر پاکستان کا تھانہ کوتوالی ہے جس کا بجٹ بھی سکاٹ لینڈ یارڈ کے 3.5بلین پاﺅنڈز سے ہزاروں گنا کم ہے اور مجرم کا اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا اقبالیہ بیان اسے سزا دلوانے کیلئے کافی ہوتا ہے ۔ میری برطانوی وزیر اعظم سے گزارش ہے کہ سکاٹ لینڈ یارڈ کا بجٹ 3.5بلین پاﺅنڈز سے کم کر کے صرف 3ملین پاﺅنڈ کر دیا جائے اور برطانوی عوام کے خون پسینے کے ٹیکس کے پیسے کو ایک ایسی نئی فورس بنانے پر خرچ کیا جائے جو برطانوی عوام کی آنکھوں میں دھول نہ جھونکے اور رنگے ہاتھوں پکڑے گئے مجرم کو با عزت طور پر بری نہ کر دے ۔اوراگر آپ نے ایسا نہ کیا تو وہ وقت دور نہیں کہ جب دنیا سکاٹ لینڈ یارڈ کی بجائے تھانہ کوتوالی پر زیادہ بھروسہ کرے گی اور لوگ سکاٹ لینڈ یارڈ کا نام تک بھول جائینگے ۔

نوٹ: اوپر بیان کی گئی تمام باتیں لکھاری کا اپنا نقطہ نظر ہیں اور ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے