جمعرات پندرہ دسمبر کو سینیٹ میں گرماگرم اجلاس کا امکان، جیالوں عمران کے حواریوں اور نواز شریف کے دربایوں نے لنکا ڈھانے کی تیاری کرلی،یہی کچھ کل بدھ کو قومی اسمبلی میں ہوگا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 13, 2016 | 15:35 شام

 

اسلام آباد(مانیٹرنگ) چیئرمین سینیٹ کی جانب سے 15 دسمبر کو طلب کیے جانے والے ایوانِ بالا کے اجلاس میں کئی اہم معاملات زیرِ بحث آنے کا امکان ہے جن میں پاناما لیکس کی تحقیقات سے متعلق بل اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کا معاملہ بھی شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق اپوزیشن کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کو پانچ نکاتی ایجنڈے سمیت درخواست جمع کرائی گئی جس میں پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے ارکان سمیت 36 سینیٹ ارکان کے دستخط موجود تھے۔

اپوزیشن جماعتوں کے غالب ہونے کی وجہ سے سینیٹ اجلاس میں گرما گرمی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے جس کی اہم وجہ ایجنڈے میں شامل ایسے نکات ہیں جن پر حکومت اور اپوزیشن کئی ماہ سے آمنے سامنے ہیں۔

اپوزیشن کی جانب سے بحث کے لیے جمع کرائے گئے ایجنڈے میں متنازع کمپنیز آرڈیننس 2016 کو مسترد کرنے کے لیے قرارداد سمیت قومی سیکیورٹی معاملات پر پارلیمانی کمیٹی کا قیام اور پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) پر خصوصی کمیٹی کی رپورٹ کی منظوری جیسے مطالبات شامل ہیں۔

پاناما لیکس پر تحقیقاتی بل اور ڈاکٹر عاصم کی حراست

سابق مشیر پٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹر عاصم کا نام ظاہر کرنے کے بجائے ایجنڈے میں اپوزیشن کی جانب سے ’سیاسی قیدیوں‘ پر بحث کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود ڈاکٹر عاصم حسین دہشت گردوں کے علاج میں معاونت کے الزام میں ایک سال سے جیل میں موجود ہیں۔

پیپلز پارٹی کی جانب سے الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ سابق صدر آصف زرداری کے دوست اور ان کی جماعت کے سینئر رہنما کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے پی پی پی کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر کا ماننا تھا کہ ایجنڈے میں ’ملک کے سیاسی قیدیوں‘ کا معاملہ شامل کرکے ان کی جماعت ڈاکٹر عاصم حسین کی طویل گرفتاری کے معاملے کو سامنے لانا چاہتی ہے۔

پاناما بل

اپوزیشن کی جانب سے 26 ستمبر کو پیش کیا گیا بل ’پاناما پیپرز انکوائریز ایکٹ 2016’ تاحال قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں التوا کا شکار ہے جس کی وجہ حکومت اور اپوزیشن میں ہونے والا ڈیڈ لاک ہے۔

کمیٹی کے آخری اجلاس میں چیئرمین کی جانب سے بل پر غور کے لیے توسیع کا مطالبہ کیا گیا تھا تاہم یہ درخواست مسترد ہوگئی تھی اور سینیٹ چیئرمین نے کمیٹی کو اپنی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایات جاری کردی تھیں۔

اب اپوزیشن چاہتی ہے کہ کمیٹی کے چیئرمین بل کا اصل ڈرافٹ سینیٹ اجلاس میں پیش کریں۔

واضح رہے کہ اس بل میں پاناما لیکس میں وزیراعظم نواز شریف کے بچوں سمیت سیکڑوں پاکستانیوں کی آف شور کمپنیوں کی موجودگی سامنے آنے پر تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

چونکہ اس معاملے پر سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور دیگر جماعتوں کی پٹیشنز پر سماعت جاری ہیں لہذا حکومت کی جانب سے اس بل کی مخالفت سامنے آئی ہے اور اسے بےسود اور بیکار قرار دیا جارہا ہے۔

تاہم پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ بھی معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو کمیشن کو اختیارات کس قانون کے تحت دیئے جائیں گے کیونکہ کورٹ پہلے ہی 1956 کے ایکٹ کے تحت کمیشن کے قیام کو رَد کرچکا ہے۔

واضح رہے کہ اپوزیشن کے پیش کیے گئے بل میں خفیہ طریقوں سے پاکستان سے باہر بھیجی جانے والی رقم کے فرانزک آڈٹ کی تجویز دی گئی ہے۔

تجویز کردہ قانون کے مطابق جن تمام افراد کے نام پاناما پیپرز میں سامنے آئے ہیں وہ کمیشن کے ججز کو اپنے بینک اکاؤنٹ تک رسائی دینے کے پابند ہوں گے، اس بل میں اپوزیشن جماعتوں کے پیش کردہ ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) بھی شامل ہیں جنہیں حکومت پہلے ہی مسترد کرچکی ہے۔

دوسری جانب حکومت، اپوزیشن کے احتجاج اور بائیکاٹ کے باوجود گذشتہ ماہ قومی اسمبلی میں نئے انکوائری کمیشن کا بل پاس کروانے میں کامیاب ہوچکی ہے۔

اپوزیشن کی جانب سے اعلان سامنے آچکا ہے کہ وہ سینیٹ میں اس حکومتی بل کا راستہ روکنے کی پوری کوشش کریں گے۔

کمپنیز آرڈیننس

فرحت اللہ بابر کے مطابق، اپوزیشن کمپنیز آرڈیننس 2016 کو مسترد کرانے کے لیے سینیٹ اجلاس میں قرارداد پیش کرے گی، یاد رہے کہ یہ آرڈیننس حال ہی میں قومی اسمبلی میں بل کی صورت پیش کیا گیا تھا۔

حکومت کے مطابق یہ آرڈیننس فراڈ، منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی فنڈنگ کے خلاف ضروری اقدامات فراہم کرتا ہے جبکہ اپوزیشن کا ماننا ہے کہ یہ آرڈیننس حکمراں جماعت کے اراکین کو آف شور کمپنیوں کے خلاف کارروائی سے بچانے کے لیے لایا گیا ہے۔

اگر سینیٹ اس آرڈیننس کے خلاف قرارداد پاس کردیتا ہے تو یہ قانون فوری طور پر غیر مؤثر ہوجائے گا۔

قرارداد پاس ہوجانے کی صورت میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرل ائنز (پی آئی اے) اور پی ایم ڈی سی کے بعد ایوانِ بالا میں اپوزیشن کی جانب سے مسترد ہونے والا یہ تیسرا آرڈیننس بن جائے گا۔