جاسٹا: مسلم دشمن ذہنیت کا غماز

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 09, 2016 | 07:04 صبح

جاسٹا(Justice Against Sponsor of Terrorism Act)کے بعدسعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی کا عنصر نمایاں ہے۔ قربتیں دوریوں میں بدل رہی ہیں۔ جاسٹا کے تحت نائن الیون واقعات میں ہلاک ہونیوالوں کے لواحقین سعودی عرب پر معاوضے کے مقدمات درج کرا سکیں گے۔ سعودی عرب نے اوباما انتظامیہ کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس نے کوئی ایسا قانون یا بل منظور کیا تو وہ امریکہ میں موجود اپنے اربوں ڈالر کے اثاثے فروخت کر دیگا۔ اسکے باوجود امریکی کانگریس نے یہ بل منظور کر لیا۔ بل تو کانگریس نے پہلے بھی منظور کیا تھا جس
ے صدر اوباما نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ویٹو کر دیا۔ صدر اوباما کانگریس کے اس فیصلے پر مایوس ہیں مگر امریکی قانون کے سامنے انکے ہاتھ بندھے ہیں۔وائٹ ہاﺅس کو پتہ ہے،کس ملک کے ساتھ کیسے ڈیل کرنا ہے، انہوں نے کانگریس کی ویٹو کو غلطی قرار دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر مقتدر اعلیٰ کے استثنیٰ کے تصور کا خاتمہ کیا جائےگا تو دنیا میں تعینات امریکی فوجیوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ نائن الیون حملوں میں تین ہزار امریکی ہلاک ہوئے۔ امریکہ نے ان کا بدلہ لاکھوں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر اور معذور، مفلوج کرکے لے لیا۔ ایک رپورٹ کیمطابق تین ملین مسلمان 11ستمبر 2011ء کے سانحہ کے انتقام کا نشانہ بنے اور بدستور انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے۔ 11ستمبر کو جہازوں سے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو نشانہ بنانے میں ملوث 19میں سے 15 افراد کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ اسامہ بن لادن کو طالبان حکومت نے پناہ دی۔ اسامہ پر نائن الیون حملوں کی منصوبہ بندی کا الزام تھا۔ انکی گرفتاری کیلئے امریکہ اور انکے اتحادیوں نے افغانستان کی عملاً اینٹ سے اینٹ بجا دی اور انسانیت کا جس طرح قتل اور حشر کیا اس پر آسمان نے بھی آنسو بہائے ہونگے۔ سعودی عرب کےلئے اسامہ اسی دن راندہ¿ درگاہ ہو گئے تھے جب وہ امریکہ کی نظر میں مجاہد سے دہشت گرد قرار پائے۔ ان پر اپنے ہی وطن میں داخلے کے راستے مسدود کر دئیے گئے۔ امریکی کانگریس کس جواز اور بنیاد پر نائن الیون میں مارے جانےوالوں کو سعودی عرب کےخلاف ہرجانے کے مقدمات کرانے کا حق دے رہی ہے؟ سعودی عرب نے بطور ریاست ملزموں کی پشت پناہی کی ہوتی تو بات بہت آگے جاتی۔ ایک خبر کے مطابق نیویارک کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں ایک خاتون نے اپنے خاوند کی موت کے ہرجانے کا دعویٰ دائر کر دیا ہے۔ اسکی ایک بیٹی بھی مقدمہ درج کرا رہی ہے۔ جاسٹا بل میں یہ واضح نہیں کہ مرنے والے کا ایک ہی وارث ہرجانے کا دعویٰ کر سکتا ہے یا جتنے بھی ہیں الگ الگ اپنے پیارے کی موت کو بہتی گنگا سمجھ لیں۔ یہ بھی عجب تماشا ہے کہ ہرجانے کے دعوے امریکی عدالتوں میں دائر ہونگے۔ انکی سعودی عرب یا کسی بھی ملک کے سامنے کیا قانونی حیثیت ہے؟ اگر سعودی عرب ایسے دعوﺅں کو مسترد کر دیتا ہے اور یقیناً ایسا ہو گا تو امریکہ کا اگلا اقدام کیا ہو گا۔ کانگریس امریکہ کا بڑا، مضبوط اور بالادست ادارہ ہے مگر وہ اپنی مرضی سے دنیا کو نہیں چلا سکتا۔ دنیا پر کنٹرول کی خواہش کی بجا آوری امریکی انتظامیہ کے ذریعے اقوام متحدہ کے توسط سے کرائی جا سکتی ہے۔ جاسٹا اقوام متحدہ کے توسط ہی سے لاگو ہو سکتا ہے مگر اس کیلئے امریکی صدر کا کانگریس کی حمایت پر کمربستہ ہونا ضروری ہے مگر کانگریس کی خواہش راتوں رات پوری نہیں ہو سکتی۔ گو اقوام متحدہ امریکہ کے زیراثر ہے مگر وہاں پوری دنیا کی نمائندگی ہے امریکہ کے علاوہ چار ملکوں کے پاس ویٹو پاور ہے سو ایسا نان سینس ایکٹ منظور ہونے کا قطعی امکان نہیں۔جاسٹا خود امریکیوں کے گلے کا پھندا بن سکتا ہے۔ سعودی عرب کو تو نائن الیون کے مجرم خود مطلوب ہیں وہ انکے کسی قول و فعل کا ذمہ دار ہی نہیں ہے جبکہ امریکہ علی الاعلان افغانستان، عراق، شام، لیبیا، صومالیہ اور پاکستان میں حملے کرکے لاکھوں افراد کو موت کی آغوش میں پہنچا چکا ہے۔ انکے لواحقین کیلئے جاسٹا اپنے پیاروں کے ہرجانے کا ایک جواز بن سکتا ہے‘ اوباما نے بھی ایسا ہی کہا ہے۔ جاسٹا امریکیوں کی مسلمان دشمنی کی ذہنیت کا عکاس بلکہ اعتراف ہے۔ کانگریس نے 76 کے مقابلے میں 348 ووٹوں کی بھاری اکثریت سے اوباما کی ویٹو کو ویٹو کیا۔ کانگریس مین پڑھے لکھے، قانون کو سمجھنے اور عالمی حالات پر نظر رکھنے والے لوگوں کا ادارہ ہے، جو امریکیوں کے نظریات، خیالات اور جذبات کا ترجمان بھی ہے۔ اگر ان لوگوں کے اسلام کے بارے میں تعصب کی یہ حالت ہے کہ ایک ماورائے عقل قانون بنا کر اس پر اپنے صدر کی رائے کو بھی مسترد کر دیا تو عام امریکی کی مسلمانوں کے بارے میں تعصب اور دشمنی کے کس درجے پر ہوگا! ڈونلڈ ٹرمپ ان کانگریس مین کی ترجمانی کرتے ہیں یا کانگریس ٹرمپ کے نظریات سے متفق ہے، یہ ایک ہی بات ہے۔ ٹرمپ مسلمانوں کیخلاف اپنی انتخابی مہم میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے عامیانہ زبان ہی استعمال نہیں کررہے بلکہ بدزبانی بھی کر رہے ہیں۔ بھارت میں مودی ایسی ہی زبان استعمال کرکے کامیاب ہوئے۔ مودی نے جو کچھ انتخابی مہم کے دوران کہا اس پر آج عمل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ کشمیریوں پر بربریت میں اضافہ، پٹھان کوٹ کے بعد اوڑی حملے کا ڈرامہ اور سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ سب مودی کی اُسی ذہنیت کا شاخسانہ ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو خبطی قرار دےکر انکے مسلمانوں کےخلاف پاگل پن کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہیلری کلنٹن ٹرمپ کے مقابلے میں سوبر ہیں،وہ مسلم دوست روئیے کا اظہار کر رہی ہیں مگر ڈیموکریٹ، ٹرمپ کی مہم سے خائف ہیں۔ ٹرمپ جو کہہ رہے ہیں کانگریس عملاً اسکی حمایت کر رہی ہے‘ کس تناسب سے 76کے مقابلے میں 348 کے تناسب سے .... امریکی ٹرمپ کو اس شرح سے ووٹ نہ دیں تو بھی وہ اسکے خبط اور جنون کو نظرانداز کرکے اتنے ووٹ دیتے نظر آتے ہیں جتنے مودی کو اسلام اور پاکستان دشمنی میں مل گئے تھے۔کل ہیلری کی ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے۔ جاسٹا جہاں سعودی عرب کیلئے ایک آزمائش اور امتحان ہے وہیں کانگریس کے شر سے مسلم امہ کیلئے ایک خیر کا پہلو بھی نکلتا ہے۔ او آئی سی 58مسلم ممالک کی منتشر اور بکھری ہوئی تنظیم ہے تاہم سعودی عرب کی قیادت میں 40مسلم ممالک کا دہشت گردی کیخلاف ایک اتحاد بھی موجود ہے۔ پاکستان، ترکی، مصر، انڈونیشیا (اور اب سوڈان) جیسے بڑے ممالک سعودی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ امریکہ کے متعصبانہ ایکٹ کے اطلاق پر نہ صرف ان چالیس ممالک میں مزید ہم آہنگی و یکجہتی پیدا ہو گی بلکہ ” دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے“ فارمولے کے تحت ایران اور اسکے زیر اثر ممالک بھی امریکہ دشمنی میں فطری اتحاد کی جانب آ سکتے ہیں۔ اس امکان کو رد کر دیا جائے توبھی یہ ممکن نہیں کہ ایران سعودی عرب کے مقابلے میں امریکہ کا ساتھ دے۔اندازہ کرلیں سعودی عرب کی قیادت میں کتنے لاکھ شہداءکے لواحقین امریکہ کےخلاف ہرجانے کے دعوے کرینگے۔