حلب سے شہریوں کا انخلا پھر سے شروع

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 19, 2016 | 17:01 شام

حلب(مانیٹرنگ ڈیسک):حلب سے بچے اور عورتیں بسوں میں محفوظ علاقوں میں منتقل ہو رہے ہیںشام میں حلب کے مقبوضہ علاقوں میں پھنسے لوگوں کے انخلاء میں تیزی آ گئی ہے اور باغیوں نے بھی شہریوں کو نکلنے کی اجازت دے دی ہے۔مشرقی حلب جو اب مکمل طور پر شامی فوجوں کے حصار میں ہے وہاں سے اتوار کو دوبارہ انخلاء شروع ہوا گیا تھا۔شہر سے نکلنے والوں میں سات سالہ بنا العباد شامل ہیں جنھوں نے شہر کے حالات کے بار میں ٹویٹ کیا تھا۔اس کے ساتھ ہی ادلب صوبے میں حکومت کے زیر قبضہ علاقے سے جو باغیوں کے محاصرے میں ہے وہاں س

ے بھی شہریوں کا انخلاء شروع ہو گیا ہے۔حلب میں کئی ہزار شہری باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں میں پھنسے ہوئے تھےاس صورت حال میں جب شام میں شہریوں کو محفوظ علاقوں میں منتقل کیا جا رہا ہے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس بات پر غور کر رہی ہے کہ شہریوں کے اس وسیع پیمانے پر ہونے والے انخلا کی نگرانی کے لیے مبصرین تعینات کیے جائیں۔مشرقی حلب سنہ 2012 سے باغیوں کے زیر قبضہ ہے لیکن شامی فوجوں نے انھیں شہر کے ایک چھوٹے سے حصہ تک محدود کر دیا ہے جہاں شہریوں کی بڑی تعداد بھی محصور ہو کر رہ گئی تھی۔ گزشتہ ایک ہفتے سے ان شہریوں کا انخلاء شروع ہو گیا ہے۔انخلا کی ابتدائی کوششیں جمعہ کو ناکام ہو گئی تھیں اور ہزاروں شہری بغیر خوراک، طبی سہولیات اور پناہ گاہوں کے وہاں پھنسے گئے تھے۔لیکن شہریوں کو باغیوں کے زیر قبضہ دوسرے علاقوں میں منتقل کرنے کا عمل اتوار کو رات گئے دوبارہ شروع کر دیا گیا تھا۔برطانیہ میں قائم سیرین آبزرویٹری گروپ فار  ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ سوموار کو پچاس بسوں کو تین ہزار شہریوں کو حلب سے لے جانے کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔بنا العباد جن کا مشرقی حلب میں واقع گھر بمباری میں تباہ ہو گیا تھا اور جن کی امن کے بارے میں اپیل دنیا بھر میں سنی گئی تھی ان کے شہر سے نکلنے کی خبر کی شامی اور امریکی امدادی تنظیموں نے تصدیق کردی ہے۔اقوام متحدہ کی بچوں کے بارے میں تنظیم یونسیف کا کہنا ہے کہ حلب سے انخلا کے منتظر لوگوں میں بیمار اور زخمی بچے بھی شامل ہیں۔یونیسف کا کہنا ہے کہ کچھ بڑے بچوں کو والدین کے بغیر شہر چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔مشرقی حلب سے شہریوں کے انخلا کو عارضی طور پر روک دینے کی ایک وجہ باغیوں اور شامی فوجوں میں ایک اور معاملے پر سمجھوتہ ہونا باقی تھا۔شامی فوجوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ادلیب صوبے میں باغیوں کے محاصرے میں شیعہ آبادی والے دیہات ، الفوعہ اور کفرایا سے بھی لوگوں کو نکلنے کا موقع دیا جائے۔اتوار کو نامعلوم مسلح افراد نے ان بسوں کو آگ لگا دی تھی جو ان دیہاتوں سے بیماروں کو نکالنے کے لیے بلائی گئی تھیں۔سیریئن آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ پیر کو دس بسیں ان دیہات سے نکل آئی ہیں۔ آبزرویٹری کا مزید کہنا ہے کہ چار ہزار میں سے پانچ سو افراد یہ گاؤں چھوڑ چکے ہیں۔اطلاعات کے مطابق القاعدہ سے منسلک ایک جہادی گروپ جہاد الفتح الشام اتوار کو بسوں پر ہونے والے حملے کا ذمہ دار تھا۔