آج کا سب سے بڑا انکشاف : ڈونلڈ ٹرمپ نے 7 مسلم ممالک کے شہریوں پر پابندی داعش کو مضبوط کرنے کے لیے لگائی ہے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 04, 2017 | 06:18 صبح

واشنگٹن (ویب ڈیسک) ریاست انڈیانا سے تعلق رکھنے والے کانگرس رکن آندرے کارسن نے کہا ہے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مسلمان اکثریت والے سات ملکوں کے شہریوں پر امریکہ میں داخلہ پر عارضی پابندی کے حکم نامے کے طویل المدتی اثرات ہونگے اور اس سے داعش اور القائدہ جیسی تنظیموں کو مزید بھرتیوں میں ممکنہ طور پر مدد ملے گی۔

وائس آف امریکہ کے ڈیوا ریڈیو سے بات ہوئے صدر ٹرمپ کے سفری پابندی والے حالیہ ایزیکٹیو آرڈر پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کارسن کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے خوف بڑھے گا اور امریکہ بہت

سال پیچھے چلا جائے گا کیونکہ یہ ایک غیر امریکی اقدام ہے اور یہ حب الوطنی پر مبنی نہیں ہے۔“اس فیصلے سے اسلامو فوبیا، نسل پرستی اور تاریکن وطن کے خلاف جذبات کا اظہار ہوتا ہے”ٹرمپ کے مطابق یہ پابندی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا اقدام نہیں ہے، برعکس اس کے اُنھوں نے اسے احتیاطی اقدامات کے سلسلے کا پہلا قدم قرار دیا ہے، جس کا مقصد امریکہ کو محفوظ بنانا ہے۔صدر ٹرمپ نے جس انتظامی حکم نامے پر دستخط کیے تھے اس کے تحت آئندہ 120 روز کے لیے پناہ گزینوں کے امریکہ میں داخلے پر قدغن جب کہ ایران، عراق، شام، صومالیہ، سوڈان، لیبیا اور یمن کے شہریوں کے امریکہ آنے پر 90 دن کی پابندی عائد کی گئی۔کانگرس رکن کا کہنا تھا کہ اس سے وہ لوگ متاثر ہوں گے جو یہاں خاندانوں کی شکل میں آئے ہیں۔ ان مسلمانوں میں وکیل، ڈاکٹر، پولیس افسر اور کاروبار کرنے والے لوگ بھی ہیں جو اس اقدام کے بعد امریکہ جیسے ملک میں اکیلے رہ جائیں گے جو ہر طرح کے لوگوں کے لئے کھلا ہے۔ایران، شام اور سوڈان دہشت گردوں کی معاونت کرنے والی ریاستوں کی امریکی محکمہ خارجہ کی فہرست میں شامل ہیں جب کہ عراق، لیبیا، یمن اور صومالیہ کا شمار ان ملکوں کی فہرست میں ہوتا ہے جہاں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہیں۔دوسری طرف اس حکم نامے کے خلاف امریکہ بھر میں ہزاروں افراد سراپا احتجاج ہیں اور ڈیموکریٹس اس پابندی کے خلاف قانون لانے کی تیاری کر رہے ہیں۔(ش س م)