سراج الدولہ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 02, 2017 | 12:22 شام

لاہور(سید اسامہ اقبال)مرزا محمد سراج الدولہ المعروف نواب سراج الدولہ (1733ءتا 2 جولائی 1757ء) بنگال، بہار اور اڑیسہ کے آخری صحیح المعنی آزاد حکمران تھے۔ 1757ء میں ان کی شکست سے بنگال میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کا سورج طلوع ہوا۔

 

ابتدائی حالات زندگی


نواب سراج الدولہ کے والد زین الدین بہار کے حکمران تھے۔ جبکہ والدہ امینہ بیگم بنگال کے نواب علی وردی خان کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ چونکہ نواب علی وردی خان کی کوئی نیرینہ اولاد نہیں تھی اس ل

یے شروع ہی سے خیال کیا جاتا تھا کہ مرشد آباد یعنی بنگال کے تخت کے وارث بھی نواب سراج الدولہ ہی ہوں گے۔ ان کی پرورش نواب علی وردی خان کے محلات میں ہوئی اور انہوں نے اوائلِ جوانی سے ہی جنگوں میں نواب علی وردی خان کے ہمراہ شرکت کی مثلاً 1746ء میں مہاراشٹر میں ہندو¿وں کو شکستِ فاش دی۔ 1752ء میں نواب علی وردی خان نے سرکاری طور پر سراج الدولہ کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ نواب ایک مذہبی آدمی تھا اور علی وردی خان کی طرح اس کا تعلق شیعہ مسلک سے تھا۔


حکمرانی


ان کا دورِ حکمرانی مختصر تھا۔ 1756ءمیں علی وردی خان کے انتقال پر 23 سال کی عمر میں بنگال کے حکمران بنے۔ شروع سے ہی بنگال میں عیار برطانوی لوگوں سے ہشیار تھے جو بنگال میں تجارت کی آڑ میں اپنا اثر بڑھا رہے تھے۔ خصوصاً ایسٹ انڈیا کمپنی نے ان کے خلاف سازشیں تیار کی جو نواب کو معلوم ہو گئیں۔ اولاً انگریزوں نے نواب کی اجازت کے بغیر کلکتہ کے فورٹ ولیم (قلعہ ولیم) کی دیواریں پختہ اور مزید اونچی کیں جو معاہدوں کی صریح خلاف ورزی تھی۔ دوم انگریزوں نے بنگال کے کچھ ایسے افسران کو پناہ دی جو ریاست کے خزانے میں خرد برد کے مجرم تھے۔ سوم انگریز خود بنگال کی کسٹم ڈیوٹی میں چوری کے مرتکب تھے۔ ان وجوہات کی بنا پر نواب اور انگریزوں میں مخالفت کی شدید فضا پیدا ہو گئی۔ جب رنگے ہاتھوں ٹیکس اور کسٹم کی چوری پکڑی گئی اور انگریزوں معاہدوں کے خلاف کلکتہ میں اپنی فوجی قوت بڑھانا شروع کی تو نواب سراج الدولہ نے جون 1756ء میں کلکتہ میں انگریزوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے متعدد انگریزوں کو قانون کی خلاف ورزی کی وجہ سے قید کر لیا۔ نواب سراج الدولہ کے مخالفین سے انگریزوں نے رابطہ کیا۔ ان مخالفین میں گھسیٹی بیگم (سراج الدولہ کی خالہ)، میر جعفر المشہور غدارِ بنگال اور شوکت جنگ (سراج الدولہ کا رشتہ دار) شامل تھے۔ میر جعفر نواب سراج الدولہ کی فوج میں ایک سردار تھا۔ نہایت بد فطرت آدمی تھا۔ نواب سراج الدولہ سے غداری کر کے ان کی شکست اور انگریزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا جس کے بعد بنگال پر انگریزوں کا عملاً قبضہ ہو گیا۔ پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا اس کی نسل سے تھے۔ سازش سے واقف ہونے کے بعد نواب سراج الدولہ نے گھسیٹی بیگم کی جائداد ضبط کی اور میر جعفر کو اس کے حکومتی عہدہ سے تبدیل کر دیا۔ میر جعفر اگرچہ ریاستی معاملات سے متعلق رہا مگر اس نے انگریزوں سے ساز باز کر لی اور جنگ پلاسی میں نواب سے غداری کرتے ہوئے نواب کی شکست کا باعث بنا۔ انگریزوں نے میر جعفر کو اقتدار کا لالچ دیا تھا۔

جنگ پلاسی

نواب اور لارڈ کلائیو کے درمیان پلاسی کے مقام پر جو کلکتہ سے 70 میل کے فاصلے پر ہے، 23 جون 1757ءکو جنگ ہوئی۔ جنگ کے میدان میں میر جعفر نواب کی فوج کے ایک بڑے حصے کا سالار تھا۔ اس کے ساتھیوں نے نواب کے وفادار سالاروں کو قتل کر دیا جس کی کوئی توقع بھی نہیں کر رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی میر جعفر اپنے فوج کے حصے کو لے کر الگ ہو گیا اور جنگ کا فیصلہ انگریزوں کے حق میں ہو گیا۔ نواب کے توپ خانہ کو پہلے ہی خریدا جا چکا تھا جس کی رشوت کے لیے انگریزوں نے بہت روپیہ خرچ کیا تھا۔حالانکہ تاریخی روایات کے مطابق میر جعفر نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر نواب سے وفاداری کا حلف دیا تھا۔توپ خانے کیوں استعمال نہیں ہوا؟ اس کے بارے یہ کہاگیا کہ بارش کی وجہ سے گولہ وبارود گیلا اور ناقابل استعمال ہوچکاتھا۔


نواب کی شہادت


نواب جنگ میں شکست کے بعد مرشد آباد اور بعد میں پٹنہ چلے گئے انہوں نے اپنی بیوی لطف النساء بیگم اور بیٹی کے ہمراہ بھیس بدل کر ایک خانقاہ“میر بعنہ شاہ“ میں روپوش تھے جہاں میر جعفر کے سپاہیوں نے انہیں گرفتار کر لیا۔ میر جعفر کے بیٹے میرمیران کے حکم پر محمد علی بیگ نے نواب کو نماز فجر کے بعد شہید کر دیا۔بعض روایات میں نواب کو نماز اور سجدہ کی حالت میں سرقلم کرکے سزائے موت دی گئی نواب کا مزار مرشد آباد کے ایک باغ “خوش باغ“ میں واقع ہے اگرچہ یہ مزار کی عمارت سادہ ہے مگر عوام کے آداب کامرکزہے۔اس طرح ایک مسلمان نے مسلمان کے ساتھ غداری اور قتل کرکے غیر مسلموں یعنی انگریزوں کی حکومت کے قیام میں مدد کی۔
نمک حرام ڈیوڑھی
جس مقام پر نواب سراج الدولہ کو شہید کیاگیا یہ میر جعفر کی رہائش گاہ تھی جسے بعد میں عوام نے “نمک حرام ڈیوڑھی “ کانام دیا۔غداروں نے نواب کی میت کو ہاتھی پر رکھ کر مرشدآباد کی گلیوں میں گھمایا تاکہ عوام کو یقین ہوجائے کہ نواب قتل ہوچکاہے اور نیانواب میر جعفر تخت نشین ہوگا۔
جنگ کے بعد
انگریزوں نے نواب کا خزانہ لوٹ لیا۔ انگریزوں نے مال تقسیم کیا۔ صرف کلائیو کے ہاتھ 53 لاکھ سے زیادہ رقم ہاتھ آئی۔ جوہرات کا تو کوئی حساب نہ تھا۔ میر جعفر کو ایک کٹھ پتلی حکمران کے طور پر رکھا گیا مگر عملاً انگریزوں کی حکمرانی تھی۔ تاریخ نے خود کو دہرایا اور بیسویں صدی میں اسکندر مرزا پاکستان کے صدر کی حیثیت سے امریکیوں کے مفادات کی ترجمانی کرتا رہا۔ انگریزوں نے ایسے حالات پیدا کیے جس سے میر جعفر کو بے دست و پا کر دیا اور بعد میں میر قاسم کو حکمران بنا دیا گیا جس کے بھی انگریزوں سے اختلافات ہو گئے۔ چنانچہ ان کے درمیان جنگ کے بعد پورے بنگال پر انگریز قابض ہو گئے اور یہ سلسلہ پورے ہندوستان پر غاصبانہ قبضہ کی صورت میں نکلا۔


نواب سراج الدولہ کے آخری ایام


رابرٹ کلائیو کو یقین ہو گیا کہ میرجعفر اس کا مددگار بن چکا۔ اسی کی وساطت سے راجا دولیہہ رام‘ جین سیٹھ اور لطف یار خان بھی طرفدار ہو گئے۔ چناںچہ وہ فوج لے کر۱۳جون ۱۷۵۷ءکو مرشدآباد کی طرف روانہ ہوا۔

۱۶ تاریخ کو وہ کٹوا قصبے پہنچا جہاں نواب سراج الدولہ کی طرف سے ایک حاکم متعین تھا۔ کلائیو نے ۷۱ تاریخ کو ایک ہزار سپاہ میجر آیرکوٹ کی سرکردگی میں کٹوا پر قبضہ کرنے بھیجی۔اگرچہ حاکم کٹوا کے پاس صرف اڑھائی سو سپاہی تھے‘ وہ مقابلہ کرنے کو تیار ہو گیا۔ قصبے پر گولہ باری شروع ہوئی۔ حاکم کٹوا نے مقابلہ شروع کیا۔ لیکن اس کے پاس سامان حرب ختم ہو گیا۔ چناںچہ وہ ضروری سامان لیے نکل کھڑا ہوا۔ بعدازاں انگریز قصبے کے اندر پہنچے تو اسے خالی دیکھ کر بہت بگڑے۔

۱۸جون ۱۷۵۷ء کو طوفانِ بادوباراں کے ساتھ ہی برسات کا موسم شروع ہو گیا۔ کلائیو وہیں مقیم رہا۔ دراصل وہ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ میر جعفر اپنے عہد پر قائم ہے یا نہیں‘ رک رک کر چل رہا تھا۔ ۱۹ جون ۱۷۵۷ءکو اس کے پاس میرجعفر کا خط پہنچا جس میں لکھا تھا کہ میں نواب کے ساتھ ضرور ہوں، لیکن اپنے اقرار پر قائم۔ مجھے امید ہے کہ جو معاملہ میرے اور تمہارے درمیان ہوا‘ تم بھی اس پر قائم رہو گے۔

کلائیو کوکچھ اطمینان ہوا لیکن پھر بھی شک باقی رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ خود وعدہ کا پکا نہیں تھا۔ بدعہد تھا‘ اس لیے دوسروں کو بھی اپنے جیسا سمجھتا۔ ا±سے خوف تھا کہ کہیں میرجعفر ا±سے دغا نہ دے۔ اگر ایسا ہوا تو ایک انگریز بھی زندہ نہیں بچتا۔

۱۲ جون کو دوپہر کے وقت اس نے ایک کونسل منعقد کی جس میں چھوٹے بڑے افسر شریک ہوئے۔ کونسل کے سامنے یہ مسئلہ پیش ہواکہ دریا عبور کر کے عظیم الشان نوابی لشکر سے مقابلہ کیا یا کٹوا میں قلعہ بند ہوا جائے؟ کلائیو نے رائے دی کہ دریا پار کر کے نواب سے لڑنادانشمندی نہیں۔ یہ اس کلائیو کا ذکر ہے جس کی بہادری کا ڈھنڈورا انگریز پیٹتے رہتے ہیں۔ اگر اس میں بہادری ہوتی تو وہ ایسا بزدلانہ مشورہ نہ دیتا۔ وہ مکر و فریب سے کام نکالنا جانتا تھا‘ بہادری سے نہیں۔ نواب سراج الدولہ کے مقابلے میں اس نے دھوکے اور فریب سے کام لیا بلکہ وہ آخر تک ڈرتا ہی رہا۔

کلائیو کی مخالفت کے باوجود زیادہ تر لوگ لڑائی کے حامی نکلے، مگر کلائیو نے ان کی رائے نہ مانی۔ کونسل برخاست کر دی اور وہاں سے اٹھ کر درختوں کے نیچے جا بیٹھا اور غور و خوض کرنے لگا۔ ابھی وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچا تھا کہ میرجعفر کا ایک اور مراسلہ آیا۔ اس میں صاف صاف لکھا تھا ”میں اپنے اقرار پر قائم ہوں۔ ساری فوج میرے ساتھ ہے‘ تم بے خوف بڑھے چلے آﺅ۔“ اس خط سے کلائیو کی جان میں جان آئی اور کچھ دلیری پیدا ہوئی۔ اب اس نے لشکر کوبڑھنے کے احکام صادر کر دیے۔

۲۰ تاریخ کو آفتاب طلوع ہوتے ہی فوج دریا پار کرنے لگی۔ چار بجے شام تک ساری فوج بخیریت دریا کے پار پہنچ گئی۔ یہاں اسے میرجعفر کا ایک اور خط ملا جس میں لکھا تھا کہ نواب سراج الدولہ پلاسی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کلائیو نے بھی اپنا رخ اسی طرف کر دیا۔ دوسرے دن صبح کوچ کر کے چھے میل دور موضع دادو پہنچ گیا۔ ابھی تک کلائیو کو یہ خوف تھا کہ کہیں میرجعفر آخر وقت میں اپنی رائے بدل کے انگریزوں کی مدد کرنے سے انکار نہ کر دے۔ اس نے وہاں سے میرجعفر کو ایک دھمکی آمیز خط لکھا جس کا خلاصہ یہ ہے:


”ہم موضع دادو پورپہنچ چکے۔ اگر تم ہمارے ساتھ آن ملو تو اچھا ہے ورنہ ہم نواب صاحب سے صلح کر لیں گے۔“

جواب لکھنے کے دو ہی گھنٹے بعد اس نے فوج کو کوچ کرنے کا حکم دیا۔ جونہی لشکر چلا‘ موسلادھار بارش ہونے لگی۔ ساری فوج پانی میں تر ہو گئی۔ بارشیں روزانہ ہو رہی تھیں‘ اس لیے دریاﺅں میں سیلاب آ رہے تھے۔ ندی نالے چڑھنے سے راستے دشوار گزار ہو گئے۔ کئی گھنٹے تک فوج کو گھٹنے گھٹنے پانی میں چلنا پڑا۔ آخر۳ ۲ جون کو ایک بجے رات کے وقت پندرہ میل کا فاصلہ طے کر کے یہ لشکر پلاسی پہنچا اور آموں کے ایک باغ میں خیمہ زن ہوا۔ انگریز یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ نواب کی فوج وہاں پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔

دغابازی کی داستان


یہ مقام جہاں غداری‘ نمک حرامی‘ فریب اور دغابازی کا مظاہرہ ہوا‘ لڑائی میں انگریزوں کو ہزیمت ہونا یقینی تھی اور جہاں ہندوستانیوں کی خوش قسمتی کا آفتاب غروب ہوا‘ ایک معمولی گاﺅں تھا۔ مرشد آباد سے بیس میل کے فاصلے پر واقع ایک جنگل کو پلاسی باغ یا پلاسی بن کہتے تھے۔ اسی بن کے قریب پلاسی نامی گاﺅں واقع تھا۔ قریب ہی نواب سراج الدولہ اور انگریزوں کی فوجیں مورچہ بند ہوئیں۔

انگریزوں نے آموں کے باغ میں مورچہ بنایاجس میں درخت قطار در قطار لگے تھے۔ اس میں درختوں کی قطاریں سلسلہ وار لگی ہوئی تھی۔ چاروں طرف کچی اور اونچی مینڈھ تھی جو فصیل کا کام دیتی۔ مینڈھ کے نیچے دریا بہ رہا تھا۔ دریا کے عین کنارے پر سراج الدولہ کی شکار گاہ تھی جس کی چار دیواری پختہ تھی اور اس میںعمارتیں بھی بنی ہوئی تھیں۔ کلائیو نے اپنی کچھ فوج تو باغ میں رکھی اور کچھ شکارگاہ میں۔

ایک میل دور نواب کے لشکر نے مورچہ بندی کر رکھی تھی۔ جہاں نواب کا لشکر مقیم ہوا وہاں دریا گھوڑے کے سم کی طرح جھک گیا تھا۔دریا کی نوکیں اس قدر سمٹی ہوئی تھیںکہ زمین کی شکل جزیرہ نما جیسی ہو گئی۔ اس جزیرہ نماکا محیط قریباً تین میل کاتھا اور چوڑائی آدھ میل ہو گی۔ جزیرہ نما کے جنوبی گوشے سے دریا ملا ہوا تھا۔ اسی کے کنارے پر ایک ٹیلہ تھا جس پہ توپیں لگا دی گئیں۔ ٹیلے سے تین سو گز مشرق کی طرف ایک چھوٹی سی پہاڑی تھی جس پر پلاسی بن واقع تھا۔

فریقین کی فوجی تعداد میں اختلاف ہے۔ نواب سراج الدولہ کے لشکر کی تعداد پچاس ہزار سے کچھ زیادہ تھی۔ اس میں ۵۴ ہزار سپاہ لطف یار خان‘ راجا دولیہہ رام اور میرجعفر جیسے غداروں اور نمک حراموں کے ماتحت تھی۔ بارہ ہزار فوجی میرمحی الدین (میرمدن) علی گوہر اور موہن لال کے تحت تھے۔

کلائیو کے ساتھ نو سو پچاس یورپی پیادے‘ دو سو مخلوط النسل‘ پچاس گورے‘ اکیس سو ہندوستانی سپاہی اور بہت سے لشکری تھے۔ ان سب کی تعداد چار ہزار کے قریب تھی۔ اتنی تھوڑی تعداد سے ایسے عظیم الشان لشکر کا مقابلہ کرنا قطعی ناممکن تھا۔ انگریز اتنی قلیل تعداد میں نواب کے عظیم لشکر سے لڑنے کا خیال بھی دل میں نہیں لا سکتے تھے۔ لیکن انھیں امید تھی کہ ان کی سازش کامیاب ہو کر رہے گی۔ جو غداری اور نمک حرامی کا بیج انھوں نے بویا ہے‘ وہ ضرور پھل لائے گا۔

لڑائی کا آغاز


۳۲ جون ۷۵۷۱ءکو دونوں لشکر مقابل ہوئے۔ نواب کے لشکر میں چار سو بہادر فرانسیسی سردار سینٹ فریسس کی قیادت میں شامل تھے۔ نواب کا لشکر آہستہ آہستہ آگے بڑھنا شروع ہوا۔ انگریز اس کو دیکھتے ہی سہم گئے۔ جس شان سے نوابی لشکر بڑھا اس سے ثابت ہوتا تھا کہ وہ انگریزوں کو کچل ڈالے گا۔

سب سے آگے سینٹ فریسس کا مختصر دستہ تھا۔ وہ اس تالاب کے پاس آ کر ٹھہرا جس میں کلائیو نے مورچہ بندی کی تھی۔نواب کی فوج قوس کی صورت پھیل گئی جس کے ایک کنارے پر میرمدن‘ علی گوہر اور موہن تھے اور باقی کناروں پر لطف یار خان‘ راجا دولیہہ رام اور میرجعفر کی فوجیں پھیلی ہوئی تھیں۔

یوں انگریز تین اطراف سے گھر گئے۔ چوتھی طرف دریا تھا۔ انگریزوں کی جرات قابل تعریف ضرور ہے کہ انھوں نے میرجعفر نمک حرام کے وعدوں پر اپنے آپ کو خطرے میں ڈال دیا۔ اگر میرجعفر نواب کو دھوکا دینے کے بجائے اس کا وفادار رہتا تو انگریزوں کی خوش بختی کا آفتاب غروب ہو جاتا اور بقول کلائیو کے ایک انگریز بھی بچ کر واپس نہ جا سکتا۔ دراصل انگریزوں کو نواب کی فوج سے کوئی خطرہ نہ تھا بلکہ وہ سینٹ فریسس کے چار سو سپاہیوں سے گھبرا رہے تھے۔

پلاسی کے مقام پر جو لڑائی ہوئی وہ لڑائی کہلانے ہی کی مستحق نہیں… وہ دغابازی اور مکاری کا مظاہرہ تھا۔ اگر لڑائی ہوتی تو ہم اس کے حالات مفصل لکھتے۔ لیکن چونکہ وہاں مکاری اور غداری عمل میں آئی‘ اس لیے وہی واقعات قلمبند کریں گے۔

جنگ شروع ہو گئی۔ سینٹ فریسس اور میرمدن کی توپیں ہولناک گرج کے ساتھ چلنے لگیں۔ انگریزکی توپوں نے بھی جواب دیا۔ آدھ گھنٹے کی گولہ باری نے انگریزوں پر ہراس طاری کر دیا۔ ان کے دس یورپی اور بیس دوسرے سپاہی کام آئے۔ اگرچہ وہ باغ میں محفوظ تھے کیونکہ ان کی مینڈھ کچی فصیل کا کام دے رہی تھی‘ پھر بھی جو گولہ باغ میں گرتا‘ وہ ایک دو انگریزوں کا کام ضرور تمام کر دیتا۔

کلائیو کے قاصد میر جعفر کے پاس آ جا رہے تھے۔کلائیو چاہتا تھا کہ میر جعفر فوراً ۵۴ ہزار سپاہ لے کر اس کی طرف آ جائے اور نواب سے لڑے۔ مگر میرجعفر مناسب موقع کا انتظار کر رہا تھا۔میرمدن اور علی گوہر توپوں کے قریب کھڑے تھے۔ ایک شخص نے علی گوہر کے کان میں کوئی بات کہی۔ وہ وہاں سے ہٹا اور فوراً نواب کے حضور میں پہنچا۔ اس نے عرض کیا ”اعلیٰ حضرت! مجھے ابھی معلوم ہوا ہے کہ میر جعفر نے اپنی فوج کو انگریزوں کی طرف چلے جانے کا حکم دیا ہے۔“

نواب سراج الدولہ فکرمند ہو گئے۔ اس وقت انہیں احساس ہوا کہ ان کے ساتھ فریب کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے علی گوہر کو رخصت کر کے میر جعفر کو طلب کیا۔ وہ اس مکار بوڑھے کو اپنے خیمے میں لے گئے اور کہا ”ماموں جان! یہ وقت میری نہیں ملک کی امداد کا ہے۔ اس مسندکی مدد کا ہے جسے علی وردی خان نے قوتِ بازو کے زور سے حاصل کیا۔ اگر انگریزوں کی فتح ہوئی تو ہندوستان ان کے قبضے میں چلا جائے گا۔ اگر اس نے تم سے کوئی وعدہ کیا ہے‘ تو ہرگز قائم نہ رہے گا۔ یہ پگڑی جس پر طرہ لگا ہوا ہے‘ تم نے میرے سر پر رکھی تھی۔ اب اس کی لاج تمہارے ہی ہاتھ میں ہے۔“

نواب سراج الدولہ نے اپنی پگڑی میرجعفر کے پیروں میں رکھ دی۔ نمک حرام نے بڑے ادب سے جھک کر اسے ا±ٹھایا اور نواب کے ہاتھ میں دے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی پر مار بڑے جوش سے کہا ”میں نواب کا وفادار ہوں اور مرتے دم تک رہوں گا۔“ اس نے پھر حلف اٹھا کر نواب کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا۔ یہ واقعہ بہت سی تاریخوں میں اسی طرح رقم ہے۔
تھوڑی دیر جنگ کے بعد کلائیو کی بزدلی اور حماقت‘ دونوں ظاہر ہو گئیں‘ لیکن عین اس موقع پر میرجعفر کا رخ بدلتا دکھائی دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب میرجعفر نے نواب کے ہاتھ میں پگڑی دے کر اپنی وفاداری کا یقین دلایا‘ وہ نواب اور اپنے ضمیر‘ دونوں کو دھوکا دے رہا تھا۔

میرجعفر نے دیکھا کہ اگر لڑائی کی یہی صورت حال رہی تو انگریزوں کا بچنا محال ہے۔ اور جب انگریز ہی نہ رہے تو اسے مسند پر کون بٹھائے گا؟ اس نے پھر وقت ضائع نہیں کیا فوراً لطف یار خان اور راجا دولیہہ رام کو اطلاع دی کہ اپنا لشکر لے کر انگریزوں کی طرف چلو اور خود بھی چل پڑا۔

جلد ہی نواب سراج الدولہ کو احساس ہو گیا کہ دغاباز نمک حراموں نے انھیں دھوکا دیا۔ اس وقت انھیں اطلاع ملی کہ وفادار جاں نثار میرمدن اور علی گوہر دونوں لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ نواب کو ان کی موت کا سخت صدمہ ہوا۔

جب نواب کی ۵۴ ہزار فوج انگریزوں سے جا ملی اور ان کے پاس صرف بارہ ہزار بلکہ اس سے بھی کم لشکر رہ گیا تو لڑنا بے کار تھا۔ وہ ہاتھی پر سوار مرشد آباد کی طرف چل پڑے اور اپنے لشکر کو پیچھے آنے کا حکم دے گئے۔

یہ تھی وہ جنگ جس نے ہندوستان کی قسمت پلٹ دی۔ ایک میرصادق دغاباز تھا جس نے شیردکن سلطان ٹیپو کا مکر و فریب اور نمک حرامی سے خاتمہ کیا۔ ایک میرجعفر جس نے غداری کر کے شیربنگال کو ختم کردیا۔ ان دونوں پر قیامت تک لعنت و ملامت کی پھٹکار پڑتی رہے گی۔ یہ لڑائی مردانہ نہیں بلکہ دھوکے کی تھی۔ انگریز ایسی لڑائی ہی میں کامیاب رہتے ہیں۔ ایک انگریز مورخ لکھتا ہے:

”صرف اس وقت جب کہ غدار اپنا کام کر چکے… کلائیو بڑھ سکا۔ اس سے پہلے کلائیو کے بڑھنے میں فوج سمیت نیست و نابود ہو جانا یقینی تھا۔“


حادثہ جانکاہ

۲۳ جون ۱۷۵۷ءکو یہ حادثہ رونما ہوا۔ اس تاریخ کو ہندوستان کی قسمت پلٹ گئی۔ میرجعفر‘ لطف یار خان اور دولیہہ رام کی غداری اور نمک حرامی کی وجہ سے انگریزوں کے قدم بنگال میں جم گئے۔ یہ وہ لعنتی لوگ ہیں جنھوں نے رشوت‘ لالچ اور جھوٹے وعدوں میں آ کر ملت فروشی اور ایمان فروشی کی اور اپنے ایسے آقا کو دھوکا دیا جو ماں باپ سے زیادہ شفیق تھے۔

سراج الدولہ شام کو اپنے محل پہنچے۔ چہرے پر سخت پریشانی اور رنج و قلق کے آثار عیاںتھے۔ میرمدن کی بیٹی اور علی گوہر کی زوجہ فردوسیہ انھیں دیکھتے ہی جھٹ خوابگاہ میں چلی گئی۔ بیگم نے نواب کو سلام کیا اور کہا ”خیریت ہے؟ اعلیٰ حضرت خاموشی کے ساتھ تشریف لائے؟“
سراج الدولہ نے غمناک لہجے میں کہا ”خیریت ہوتی تو اس طرح کیوں آتے؟ ماموں جان میرجعفر نے نمک حرامی کی اور دشمن کا ساتھ دیا۔ ہمیں شکست ہو گئی۔ ہماری خوش بختی کا آفتاب غروب ہوا۔“

یہ سن کر بیگم سکتے میں آ گئیں۔ کچھ وقفے کے بعد کہا ”گھبرائیے نہیں‘ خزانہ کافی ہے۔ نئی فوج بھرتی کیجیے اور دشمن کو شکست دیجیے۔“
سراج الدولہ: ”یہی ارادہ ہے۔“
بیگم: ”کیا میر مدن بھی دشمن سے مل گئے؟“

سراج الدولہ: ”نہیں وہ وفادار تھے‘ جان نثار کر گئے۔ جب تک زندہ رہے‘ دشمن کو آگے بڑھنے کا حوصلہ نہ ہوا۔“
فردوسیہ خوابگاہ کے دروازے سے لگی‘ کھڑی سن رہی تھی۔ باپ کی موت کا حال سن کر بے اختیار آنسو جار ی ہو گئے۔ دل تلملا اٹھا۔
بیگم نے پوچھا ”اور علی گوہر؟“
سراج الدولہ: ”آہ! وفادار علی گوہر وہ بھی حق نمک ادا کرتے ہوئے شہید ہو گیا۔“

اب فردوسیہ سے ضبط نہ ہو سکا۔ دردناک چیخ ماری اور دھڑام سے گری۔ عورت شوہر سے بے انتہا محبت کرتی ہے اور کیوں نہ کرے‘ دنیا کی دل بستگی شوہر ہی کے دم سے ہے۔ نواب اور بیگم دوڑ کر خوابگاہ میں داخل ہوئے۔ بیگم فردوسیہ بے حس و حرکت پڑی تھیں۔ انھوں نے انتہائی غم بھرے لہجے میں نواب کو دیکھ کر کہا ”ذرا دیکھنا میری بہن کو کیا ہو گیا۔“

نامحرم عورت کو ٹٹولتے ہوئے سراج الدولہ ہچکچائے لیکن موقع ایسا نازک تھا کہ پس و پیش کرنا نقصان دہ ثابت ہوتا۔ وہ اس کے اوپر جھک گئے۔ جلدی سے اسے ٹٹولا۔ سانس دیکھا اور نبض دیکھی۔ وہ ساکت ہو چکی تھی۔ جسم میں گرمی نہ رہی تھی۔افسوس بھرے لہجے میں کہا ”افسوس‘ غریب فردوسیہ دنیا سے رخصت ہو گئی۔“

یہ سنتے ہی بیگم کے دل کو دھکا سا لگا اور وہ بیہوش ہو کر گرنے لگیں۔ سراج الدولہ نے انھیں مسہری پر لے جا لٹا دیا۔ دو تین مرتبہ کراہنے کی آواز آہستہ سے آئی اور ا±ن کا جسم بھی بے جان ہو گیا۔

سراج الدولہ نے یہ دیکھا تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔کہا ”بیگم! تم بھی میری قسمت کی طرح مجھے دھوکا دے گئیں۔ یہ امتحان اور باقی تھا۔ خدا نے وہ بھی لے لیا۔“
وہ کچھ دیر بیگم کے قریب بیٹھے آنسو بہاتے رہے۔ پھر کچھ سوچ کر ا±ٹھے۔ فردوسیہ کو بھی اٹھا کر بیگم کے پاس لٹایا۔ پھر خوابگاہ سے باہر آ کے کنیزوں کوبلوانے کا حکم دیا۔
بعدازاں وہ درباری جو مرشدآباد میں رہ گئے تھے‘ نواب نے چہل ستون میں ان سے ملاقات کی۔ بعض نے مشورہ دیا کہ نئی فوج بھرتی کر کے دشمن کا مقابلہ کیا جائے۔ انھوں نے جواب دیا ”میرا بھی یہی ارادہ تھا لیکن بیگم کی موت نے میرا دل توڑ دیا۔ اب میرا ارادہ بدل گیا ہے۔ میں فقیری اختیار کروں گا۔“
کچھ لوگوں نے عرض کیا”حضور! انگریزوں کی شرائط مان لیں۔“

سراج الدولہ نے جوش میں آ کر کہا ”کیا میں انگریز کی غلامی قبول کر لوں؟ حاشا مجھ سے یہ نہ ہو گا۔ غلامی سے موت اچھی۔“
اس عرصے میں رات آدھی سے زیادہ گزر گئی۔ اسی وقت مشہور ہوا کہ میرجعفر آ رہا ہے۔ نواب نے فقیر کا بھیس بدلا اور محل سرا کے پچھلے دروازے سے نکل رات کی تاریکی میں غائب ہو گئے۔

خزانے کی لوٹ


جب نواب سراج الدولہ کی فوج میدان جنگ سے ہٹی تو میر جعفر نے کلائیو کے پاس ملاقات کا پیغام بھیجا۔ اسے امید تھی کہ کلائیو اور تمام انگریز اس کے مشکور ہوں گے۔ اس نے آقا کے ساتھ غداری اور نمک حرامی کر کے انگریزوں کو وہ فتح دلائی جو ا±ن کے خواب و خیال میں بھی نہ آ سکتی تھی۔ اس فتح نے کم از کم بنگال میں انگریزوں کے قدم جما دیے۔ لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب کلائیو نے توقع کے خلاف یہ پیغام بھیجا کہ کل موضع داﺅد پور آ کر ملاقات کرو۔

یہ قدرتی بات تھی کہ میرجعفر کے دل میں اس جواب سے طرح طرح کے شکوک پیدا ہونے لگے۔ دراصل اس وقت میرجعفر اور انگریز‘ دونوں کی حیثیت لٹیروں کی سی تھی۔ لٹیرے بہت جلد ایک دوسرے سے بدظن ہو جایا کرتے ہیں۔ میرجعفر نے وہ رات بڑے کرب و اضطراب میں بسر کی۔ صبح یعنی ۴۲ جون ۷۵۷۱ءبروز جمعہ جب میر جعفر ناشتا کر رہا تھا کہ کلائیو کا پیغام طلبی آ پہنچا۔

جو کچھ وہ کھا رہا تھا‘اس کے ہاتھ سے گر پڑا۔ اس پہ ہراس طاری ہو گیا۔ وہ خوب جانتا تھا کہ جب تک نواب سراج الدولہ کا دبدبہ رہا‘ کسی انگریز کی خواہ وہ کتنا بڑا افسر ہو‘ یہ جرات نہیں تھی کہ اسے بلا سکے۔ انگریز اس کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کرتے تھے۔

لیکن سراج الدولہ کو ہزیمت ہوتے ہی میرجعفر کا اقبال بھی رخصت ہو گیا۔ اسی لیے جب کلائیو سے ملاقات کرنا چاہی تو انکار کر دیا گیا۔ دوسرے روز بجائے اس کے کہ کلائیو آتا‘ اس نے ہی میرجعفر کوطلب کر لیا۔

اب میر جعفر مزیدفکرمند ہوا۔ سہم گیا کہ کہیں انگریز اس کے ساتھ بھی دغا نہ کریں۔ بہرحال کلائیو کے حکم کی تعمیل کرنا ضروری تھی۔ اب اسے اپنی بے بسی کا خیال ستانے لگا۔ اپنے بیٹے میرن کو ساتھ لیا اور انگریز کیمپ کی طرف چلا۔ کرنیل جی بی میلسن نے اپنی کتاب ”لارڈ کلائیو“ کے صفحہ۷۴ ۱ پر لکھا ہے:

”میرجعفر بڑامضطرب تھا۔ وہ انگریز لشکر کی طرف یہ سوچتا جا رہا تھا کہ دیکھو‘ یہ لوگ میرے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اور میری نمک حرامی کا کیا انعام ملتا ہے۔ جب وہ بدبخت اور ابنِ شیطان انگریزی کیمپ میں کلائیو کے سامنے پہنچا تو ہاتھی سے اترا۔ اسی وقت ایک انگریزی دستہ اس کی طرف بڑھا۔ میر جعفر کا چہرہ فق پڑ گیا۔ کانپنے کی وجہ یہ ہوئی کہ کلائیو خیمے کے سامنے خاموش کھڑا تھا۔ قدرتی طور پر میرجعفر یہ سمجھا کہ وہ دستہ اسے گرفتار کرنے بڑھ رہا ہے۔“

کلائیو اس کی پریشانی اور اضطراب بھانپ گیا۔ ممکن ہے کہ کلائیو کے دل میں بھی یہ بات آئی ہو کہ میرجعفر کو اس کی دغابازی اور نمک حرامی کی سزا دے۔ لیکن یہ سوچ کر خاموش ہو گیا کہ مکار بوڑھے سے ابھی کئی کام لینے تھے۔

کلائیو یہ بات بھی سمجھتا تھا کہ اگر ہندوستانیوں کو اس کی چالبازیوں کا پتا چلا تو وہ انگریزوں کا خاتمہ کر ڈالیں گے۔ میرجعفر اس کے دام میں پھنس چکا تھا۔ اس نے ا±سے آلہ کار بنانے کا ارادہ کیا۔ چناںچہ وہ فوراً بڑھا اور صوبے دار صاحب کہہ کر میرجعفر کو سلام کیا۔ اظہار تشکر گزاری کے طور پر ا±س پیرفرتوت کو گلے لگایا اور کہا ”میرجعفر! تم فکر و اندیشہ نہ کرو۔ انگریزوں نے تم سے جو وعدے کیے‘ وہ اپنا مذہب سمجھ کر ایمانداری کے ساتھ انھیں پورا کریں گے۔ تم سراج الدولہ کے تعاقب میں فوراً جاﺅ۔ ایسا نہ ہو وہ نیا لشکر بھرتی کر کے ہماری اور تمہاری مشکلات میں اضافہ کر دے۔ میں بھی تمہارے پیچھے تمہاری مدد کو آتا ہوں۔“

یوںانگریز نے نہایت چالاکی سے ہندوستانیوں کو ہم وطنوں کے ہاتھوں ہی تباہ کرا دیا۔اس نے دیکھ لیا تھا کہ یہاں مختلف قومیں آباد ہیں۔ ان میں آسانی سے نفرت اور دشمنی پیدا کرائی جا سکتی ہے۔یہاں بہت سی چھوٹی چھوٹی حکومتیں ہیں، کسی ایک حکومت کی طرفداری کر کے دوسری کو زیر کرنا ممکن ہے۔ احمق ہندوستانی اپنی حکومتوں کو خود ہی تباہ کرسکتے ہیں۔ رشوت‘ لالچ اور جھوٹے وعدوں سے انھیں ا±لو بنایا جا سکتا ہے… سراج الدولہ اور میرجعفر کے معاملے میں انھیں تجربہ ہو ہی گیا۔

میرجعفر کے لیے اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ کلائیو کے احکام کی تعمیل کرے۔ چناںچہ لوٹا اور اپنا لشکرلیے مرشد آباد کی طرف روانہ ہوا۔ ۵۲ جون کو شہر پہنچا۔ پیچھے پیچھے کلائیو بھی آیا۔ لیکن اس خوف سے کہ کہیں مرشد آباد کے لوگ بھڑک کر انگریزوں پر حملہ نہ کر دیں‘ ا±سے مرشد آباد میں داخل ہونے کی جرات نہیں ہوئی۔ وہ شہر سے کچھ میل کے فاصلے پر سیدآباد میں واقع فرانسیسی کوٹھی میں ٹھہرا۔

مرشدآباد میں آمد

جب میرجعفر نے مرشد آباد کے لوگوں کو ہموار کر لیا اور یہ اندیشہ دور ہو گیا کہ انگریزوں کے شہر آنے پر وہ حملہ نہیں کریں گے تب ا±س نے کلائیو کو شہر آنے کی دعوت دی۔ وہ ۹۲ جون ۷۵۷۱ءکو دو سو گورے اور پانچ سو ہندوستانی سپاہی لیے مرشد آباد میں داخل ہوا۔ اسی دن سہ پہر کے وقت کلائیونے میرجعفر کو مسندنشینی کے لیے بلایا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح جلد اس بوڑھے مردود کو مسند پر بٹھا کر نواب کے خزانے کی لوٹ مار شروع کرے… مہذب لوٹ یعنی لوٹے بھی اور نام بھی نہ آئے۔

اسی وقت نوبت و نقارے بجنے لگے۔ درباریوں نے باری باری نذریں پیش کیں۔ اس کے بعد نواب سراج الدولہ کے خزانے کی لوٹ شروع ہوئی۔ لارڈ کلائیو‘ لارڈ ڈریک‘ میجر کلپڑک‘ مسٹر واٹسن اور دیگر انگریز افسروں نے لاکھوں روپے لوٹ لیے۔

حقیقت یہ ہے کہ بوڑھے بدکار میرجعفرنے مفت کا مال سمجھ کر سب کچھ انگریزوں کو دے ڈالا۔ کلائیو وغیرہ نے تو اپنا حصہ نقد لیا۔ کمپنی کے حصے کا آدھا تو اسی وقت نقد لے کر کلکتہ بھیج دیا اور آدھے کی بابت تین قسطیں سال وار منظور کر لیں۔ اس طرح میرجعفرخزانے کی کوڑی کوڑی لٹا کر ایک طرح سے انگریزوں کا آوردہ اور محکوم بن کر مسند نشین ہوا۔

سراج الدولہ حکومت کرنا چاہتے‘ تو ا±ن کا خزانہ بھرپور تھا۔ رعایا خوش تھی۔ وہ مرشدآباد میں رہ کربا آسانی نئی فوج بنا سکتے تھے۔ رعیت ان کاساتھ دیتی۔ لیکن اب ان کا دل ٹوٹ گیا تھا۔ انہی لوگوں نے دھوکا دیا جن کے ساتھ انھوں نے نیک سلوک کیے تھے۔ جنھوں نے قرآن شریف ہاتھ میں لے کر وفاداری کا حلف اٹھایا تھا۔ پھر ان کی شریک حیات بھی انھیں داغ مفارقت دے گئی۔ اب دنیا اندھیر ہو گئی۔ حکومت تو کیا زندگی کی بھی خواہش نہیں رہی لیکن وہ مسلمان تھے‘ خودکشی کو گناہ عظیم سمجھتے۔ اس لیے باقی زندگی فقیری میں بسر کرنے کا ارادہ کر لیا۔

ادھرانگریز اور میرجعفر‘ دونوں خوب جانتے تھے کہ نواب سراج الدولہ رعایا میں ہر دلعزیز ہیں۔ اگر وہ چاہیں‘ تو فوج بھرتی کر کے دوبارہ حکمران بن بیٹھیں۔ انھوں نے یہ خطرہ مٹانے کے لیے ان کی تلاش شروع کر دی۔ بے شمار آدمی ان کی گرفتاری پر مامور کیے۔یہ لوگ میرجعفر کے نمک خوار تھے۔ انگریزوں نے جگت سیٹھوں کو آمادہ کر لیا کہ وہ سراج الدولہ کے پکڑے جاتے ہی ان کا کام تمام کر دیں۔

اگرچہ نواب کی قوت جاتی رہی تھی۔ وہ مسند اور دارالسلطنت چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ اپنا تمام خزانہ جوں کا توں چھوڑ گئے۔ خالی ہاتھ فقیر بن کر نکلے۔ لیکن کلائیو اور انگریز اب بھی ان سے خوفزدہ تھے۔ سراج الدولہ کانام سنتے ہی ان کے دلوں پر ہیبت طاری ہو جاتی۔ وہ خزانہ لوٹ کر اپنے آپ کو محفوظ اسی وقت سمجھتے جب سراج الدولہ دنیا میں نہ رہتے۔
آخر ان کی امید بر آئی۔نواب راج محل نامی مقام پر گرفتار ہوئے۔ ۲ جولائی ۷۵۷۱ءکو میرجعفر کے سامنے لائے گئے۔ انھیں فقیری لباس میں دیکھ کر میرجعفر کے دل پر گھونسا سا لگا۔ وہ نادم اور شرمندہ نظر آنے لگا۔

میرجعفر کو اپنا وہ زمانہ یاد آیا جب بہار سے غربت اور بے کسی کی حالت میں آیا تھا۔ تب سراج الدولہ کے نانا‘ علی وردی خان کے حضور درخواست ملازمت کی تھی۔ انھوں نے ا±سے شریف سمجھ کر فوجی افسر بنایا اور رفتہ رفتہ ترقی دے کر اپنے معتمد افسروں میں شامل کر لیا۔ پھر اسے اپنے عزیزوں میں شامل کر اس کی بہن سے شادی کر لی۔ ا±سے جو کچھ عروج حاصل ہوا‘ وہ علی وردی خان کے طفیل تھا۔ اس کے عروج کو سراج الدولہ نے اور زیادہ ترقی دی۔

بہر حال میرجعفر نے سراج الدولہ کو نظربند رکھنے کا حکم دیا۔ انگریز کا جگت سیٹھوں سے خفیہ معاہدہ ہو چکا تھا کہ وہ سراج الدولہ کو ضرور قتل کرا دیں۔ چناںچہ ان نمک حراموں نے ایک شیطان سیرت شخص محمدبیگ کے ذریعہ انھیں قتل کرا دیا۔

صبح جب اسے حادثے کی خبر پھیلی تو شہر میں طوفان غضب ا±منڈ آیا۔ میرجعفرنے امیروں اور رئیسوں کو امن بحال کرنے بھیجا۔ بے چارے عوام کی راہبری کرنے والا کوئی نہ تھا‘ اس لیے جوش و غضب کا طوفان جلد سرد پڑ گیا۔ ورنہ میر جعفر کاپتا چلتا نہ کسی انگریز کا…

یہ تھی داستان اس خدا رسیدہ‘ پرہیزگار اور پرجوش مسلمان نواب سراج الدولہ کی جو مکر و فریب‘ دھوکا اور دغابازی سے شہید کردیے گئے۔ جس طرح سلطان ٹیپو شیردکن تھے اسی طرح سراج الدولہ شیربنگال تھے… سلطان ٹیپو شہید مکر و فریب کا شکار ہوئے اور نواب سراج الدولہ بھی اور ان دونوں کے نام تاریخ میں آفتاب کے مانند چمک رہے ہیں۔

جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگ ملت‘ ننگ دیں‘ ننگ وطن