پاناما کیس : جج حضرات ہوشیار باش : ن لیگ کی سوشل میڈیا ٹیم اور سیاپا بریگیڈ کی جانب سے گھٹیا اقدامات کا انکشاف ،تفصیلات اس خبر میں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 29, 2017 | 07:38 صبح

لاہور (شیر سلطان ملک)  روزنامہ نوائے وقت کے سینئیر کالم نگار فضل حسین اعوان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں

پانامہ ہنگامہ زوروں پر ہے۔جماعت اسلامی کے وکیل کو سبکی اور مذاق کا سامنا کرنا پڑا۔ جماعت خیبر پی کے میں تحریک انصاف اور آزاد کشمیر میں ن لیگ کی اتحادی ہے‘ کیس میں درمیانی راستے پر چلتی دکھائی دیتی ہے ۔ کرپشن کے خلاف مہم میں یہ پی ٹی آئی کی اتحادی نہیں بنی،الگ سے کرپشن کے خاتمے کا ترانہ گنگنا رہی ہے۔ پانامہ کیس میں عدالتی کمشن کے لئے

پورا زور لگادیا۔ پانامہ میں جس طرح نواز لیگ الجھی ہوئی ہے جوڈیشل کمشن بننے سے اس کی ٹینشن ختم ۔ جماعت کے وکیل کی کارکردگی ان کو دئیے گئے ’’مشن‘‘ کے مطابق مثالی ہے اور ا س سے بھی عمدہ کارکردگی ن لیگ کے وکلاء کی ہے جو کیس کو وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے گرد گھماکرنواز شریف کو بچاکر ایک طرف کرچکے ہیں۔پی ٹی آئی کو مریم‘ حسن اور حسین نواز کو سزاؤں اور کیپٹن صفدر کی نااہلیت سے غرض نہیں‘ وہ وزیراعظم نواز شریف کو ٹارگٹ کئے ہوئے تھی۔ تاہم ایک امکان ایک فیصد ہی سہی، وزیراعظم کے خلاف فیصلے کا موجود ہے۔ ایسا ہوا تو ن لیگ کی میڈیا ٹیم اور سیاپا بریگیڈ بنچ کے معزز جج حضرات کے سکینڈل سامنے لا سکتا ہے۔ ماڈل ٹاؤن سانحہ میں جج باقر نجفی‘ ایاز صادق نااہلی کیس میں جج کاظم ملک اور سانحہ کوئٹہ کمشن کے سربراہ جسٹس فائز عیسیٰ کو بدنام کیا گیا۔ ہمارے ہاں کی جمہوریت میں ایسا ہی ہوتا ہے اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے جیسا قومی اسمبلی 26جنوری 2017 ء کو لڑائی مارکٹائی ہوئی‘ اسے بھی جمہوریت کا حسن کہا جائے گا۔ نواز لیگ اور پی ٹی آئی کے ممبران نے شاہ سے زیادہ شاہ سے وفاداری جتلانے کے لئے آستینیں چڑھائیں اور ایوان کو میدان جنگ بنا دیا۔ ہر دو پارٹیوں کے ’’موگیمبو‘‘ خوش ہوئے۔ ایسا کئی ملکوں کی جمہوریت میں ہو چکا ہے۔ مشرقی پاکستان اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر شاہد علی کو اپوزیشن نے اجلاس کے دوران بدترین تشدد کا نشانہ بناکر مارڈالا تھا ۔مشرقی پاکستان اسمبلی 6 حکومتی ارکان کے پاس پر کشش سرکاری عہدے بھی تھے جس کے باعث سپیکر عبدالحکیم نے 21 ستمبر 1958 کورولنگ کے ذریعے ان ارکان کی رکنیت معطل کردی۔ جس پرحکومتی ارکان نے بے قابوہوکر پیپر ویٹ، پردوں کے ڈنڈوںسے ہلہ بول دیا،تھوڑی سی چھترول کے بعد سپیکر بھاگ نکلے جس کے بعد اجلاس چلانے کی ذمہ داری ڈپٹی سپیکر شاہد علی پٹواری نے سنبھالی۔ ڈپٹی سپیکر نے حکومتی ارکان کی معطلی ختم اور ان کی سپیکر عبدالحکیم کو پاگل قرار دینے کی قرارداد منظور کرلی۔اب مشتعل ہونے کی باری اپوزیشن کی تھی جو حکومتی ارکان کا ’’پھینکا ہوا سلحہ‘‘ اٹھا کر پٹواری پرپِل پڑے،دودن بعد شاہد علی پٹواری زخموں کی تاب نہ لاکر راہی ٔ ملکِ عدم ہوگئے۔جن کی’ آئی‘ شاہد علی کو آگئی وہ عبدالحکیم ابھی زندہ ہیں۔اس سانحہ کے ایک ماہ کے اندرصدر سکندر مرزا نے مارشل لاء نافذ کیا اور اگلے دس دن میں جنرل ایوب نے ٹیک اوور کرلیا۔اس کے بعد جرنیلوں کیلئے اقتدار میں آنے کے راستے کھل گئے۔پاکستان میں ’’کو‘‘ کرنے والے جرنیل تین چار رہے ہیں،اکثر نے جمہوریت کو سپورٹ کیا مگر فوج کو ایک طبقہ باقائدہ بدنام کرنے پر تلا ہوا ہے۔پاکستان میں جنرل راحیل نے اپنے تین سالہ آرمی سربراہ کے طور پر جمہوریت کو تو کچھ نہ کہا تاہم قومی غیرت اوروقار کیلئے معاملات اپنی مرضی سے چلاتے رہے۔ خارجہ پالیسی پر ان کی گرفت تھی۔ دہشتگردوں سے نجات دلائی اور کراچی میں بدمعاشوں اور بدقماشوں کا تعاقب کیا۔ وہ جمہوری دور میں غیر جمہوری رویوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے اور ذمہ داروں کوغیر ذمہ داری پر گھورتے تھے۔ آصف زرداری نے تو اینٹ سے اینٹ بجانے کا بیان دیکر اپنا ابال نکالا اور راہ فرار اختیار کر لی جبکہ حکمران پارٹی نے کینے کا اُس وقت اظہار نہ ہونے دیا اور اب چھپانے کی ضرورت محسوس نہیں کررہے۔ 39 ملکی اسلامی فوجی سربراہی کا شوشہ چھوڑ کر جنرل کے خلاف بحث کے دروازے کھول دئیے۔ سینٹ میں رضا ربانی نے ایک مفروضے پر بحث چھیڑدی۔ خواجہ آصف فوج کیساتھ حساب چکتا کرنے کی شہرت رکھتے ہیں‘ سرتاج عزیز اور اسحاق ڈار نے بھی جنرل راحیل پر بحث کو فرض عین سمجھ لیا۔ اب قوانین کے تحت الاٹ کی گئی اراضی کو سکینڈل بنا کر پیش کیااور جنرل راحیل کو رگڑا دیا جا رہا ہے۔ ایک مخصوص سوچ اور نظریات کا حامل میڈیا گروپ جنرل راحیل کی تذلیل اور تضحیک کے لئے آگے آگے ہے مگر کس کے ایما پر؟ انہی کے ایما پر جو کہتے تھے غلیل کے ساتھ نہیں دلیل کے ساتھ ہیں۔ جنرل راحیل کو اللہ نے عزت و احترام دیا ہے۔ وہ پاکستانیوں کی اکثریت کے دل میں بستے ہیں۔ ڈیووس اکنامکس فورم گئے تو دنیا نے ایک ایک لفظ کوغورسے سنا جبکہ وزیراعظم کی تقریر کی نوبت ہی نہیں آئی۔لوگوں کے دلوں میں اپنے کام اور کارکردگی سے مقام بنایا جاتا ہے سازشوں اور دوسروںکی تضحیک وتذلیل کرکے نہیں۔یہ اصول پی ٹی آئی اور پی پی  پی کے سیاپا بریگیڈز کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔