اپنے ذرائع کو کیسے محفوظ رکھا جائے؟ ۔۔۔مظہر عباس

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 18, 2016 | 04:07 صبح


دنیا بھر میں صحافی اپنے ذرائع بتانے کے بجائے جیل جانے کو ترجیح دیتے ہیں، بالخصوص حق معلومات کے قانون کی عدم موجودگی میں صرف باوثوق ذرائع کا استعمال خبر نکالنے کا واحد حل رہ جاتا ہے۔
حالیہ تنازع جو کہ اچھی شہرت کے حامل صحافی سیرل المیڈا کی ایک اسٹوری پر سامنے آیا، اس سے ایک شخص اور ایک سے زیادہ اداروں کی ساکھ داﺅ پر لگ گئی ہے جن میں اخبار ڈان، حکومت وفوج اور مذکورہ بالا صحافی شامل ہے۔
ایک ہفتے سے جاری اس بحث کا حتمی نتیجہ آسان نہیں، کچھ ممالک میں صحافی قانوناً اپنے ذرائع بتا

نے کے پابند ہوتے ہیں اور اگر ججز کی آراءیہ ہو کہ ایسا کرنا عوامی مفاد میں ہے تو وہ اپنے خلاف فیصلہ قبول کرکے جیل چلے جاتے ہیں، درجنوں صحافیوں نے کئی ماہ و سال جیلوں میں گزارے۔
پاکستان میں تو کچھ لوگوں نے اپنا ذریعہ ظاہرکرنے سے انکار پر اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے، ذریعے کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ اس کا قابل اعتبار ہونا بہت ضروری ہوتا ہے، کیونکہ صحافی اور اخبارات جانتے ہیں کہ ممکنہ ردعمل اور قانونی کارروائی ہوسکتی ہے۔
بالخصوص اس صورت میں جبکہ حکومت اس کی تردید کرے اور صحافی اپنی اسٹوری کے دفاع کے لیے تیار ہوجائے، دوسرے بہت سے صحافیوں کی طرح راقم کو بھی اس قسم کی صورتحال کا کافی بار سامنا کرنا پڑا ہے، جن میں سے ایک بار جنرل ضیاء کے دور میں فوجی عدالت کا معاملہ بھی شامل ہے لیکن سیرل المیڈا کے معاملہ کی صحافتی تاریخ میں ایک سے زیادہ وجوہات کی بناپر مثال نہیں ملتی۔
حالیہ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ حکومت نے تین مختلف تردید جاری کی ہو اور چوتھی تردید فوج کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے آئی ہو۔

دوسری بات یہ کہ تردید جاری کرنے میں جو پوزیشن لی گئی ہے وہ خود ریاست کے دو اہم اداروں کے درمیان کشیدگی کی موجودگی ظاہر کررہی ہے۔
تیسری بات یہ کہ خبر جھوٹی ہو یا کسی اعلیٰ عہدیدار کی جانب سے فیڈ کی گئی ہو لیکن یہ غیر معتبرذریعہ نہ تھا، اب تحقیقات کے دوران بھی ڈان اور سیرل اپنے ذریعے کو ظاہر نہیں کریں گے، کیونکہ یہ صحافتی اصولوں کے خلاف ہے،بالخصوص اس صورت میں جبکہ دونوں نیشنل سیکیورٹی اجلاس کے حوالے سے اسٹوری کی اشاعت پر اپنے موقف پر قائم ہیں۔
جمعرات کو جب پریس کونسل آف پاکستان کا اجلاس ہوگا تو اسے اس اسٹوری سے متعلق کئی مسئلوں کا سامنا ہوگا اور اسے اس سے منسلک تمام افراد کو بلانے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے مختلف طبقے کی آراء لینے کی ضرورت پڑے گی۔
ہر صحافی کی اپنی اسٹوری یا خبری تجزیہ تحریر کرنے سے پہلے ایک ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ حقائق سے متعلق تمام معلومات جمع کریں، کیونکہ اسٹوری کی کامیابی کا انحصار اس کے مستند اور قابل اعتبار ہونے پر ہوتا ہے اور جب ا?پ مختلف ذرائع سے معلومات جمع کرتے ہیں اور اس کی تصدیق کرتے ہیں تو اس میں غلطی یا کسی تعصب کا بہت ہی کم امکان ہوتا ہے۔
صحافی کے لیے یہ بھی بہت اہم ہوتا ہے کہ وہ معلومات کا جائزہ لیتے ہوئے بالخصوص اس وقت جب حساس نوعیت جیسے قومی سلامتی، خارجہ پالیسی یا مالی معالات پر مبنی اسکینڈل یا خاص شخص سے متعلق معاملہ ہو بہت محتاط رہے کیونکہ یہ عدالت بھی جاسکتا ہے۔
صحافی اس وقت مشکل میں پڑجاتا ہے جب وہ اپنی اسٹوری کا دفاع نہیں کرسکتا جبکہ وہ درست معلومات پر مبنی بھی ہو،ایسا 2013ء میں اس وقت ہوا جب ڈاکٹرعمران فاروق قتل کیس میں ایک ملزم کی اہلیہ نے سندھ ہائیکورٹ میں پٹیشن فائل کی، اس پر عدالت نے سینئر پولیس افسر اور خفیہ ایجنسیوں کے حکام کو بھی طلب کرلیا اور ان سب نے تردید کی، جس کے بعد عدالت نے رپورٹر کو طلب کیا اور اس سے کہا کہ وہ اپنے ذریعے کے بارے میں بتائے، جس پر اس نے ذریعہ بتانے سے تو انکار کیا تاہم اپنی اسٹوری پر قائم رہا۔

کچھ ماہ بعد اس کیس کے تینوں ملزمان سامنے آئے اور پولیس نے ان کی گرفتاری کی تصدیق کی جس سے یہ ثابت ہوا کہ رپورٹر درست تھا۔

لہٰذا یہ اہم ہے کہ ذریعہ قابل اعتبار، مستند اور آزمایا ہوا ہو، عموماً حساس نوعیت کے معاملات میںصحافی اکثر اپنے ایڈیٹرز کو اعتماد میں لیتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ بالآخر یہ ایڈیٹر ہی ہوتا ہے جو کہ تمام ذمہ داری اپنے اوپر لے لیتا ہے۔

اب جو پوزیشن ڈان نے لی ہے وہ سادہ ہے، اس طرح کہ اس نے بنیادی اصولو ں پر چلتے ہوئے تصدیق کے طریقے کار پھر اس کی ایک سے زیادہ ذرائع سے مزید تصدیق کو اختیار کیا،اب یہ ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اسے غلط ثابت کرے، ورنہ من گھڑت اسٹوری کا مطلب ہے کہ اس پر اس طرح مباحثہ نہیں ہوتا ہے۔

اب اس اسٹوری میں فوج کی اعلیٰ قیادت نے ایک مختلف پوزیشن لی ہے، وہ یہ کہ یہ اسٹوری نہ صرف جھوٹی ہے بلکہ کسی نے فیڈ کی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کی کوششوں کو نقصان پہنچایا جاسکے، وہ اصل میں کیا چاہتے ہیں۔

(اول) اس ذریعے یا شخص کا پتہ چلایا جائے جس نے یہ اسٹوری صحافی کو فیڈ کی(دوم)اس نے ایسا کیوں کیا؟ اور کس مقصد کے لیے؟ اور (سوم)اس عہدیدار کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور متعلقہ سیکشنز کے تحت کارروائی کی جائے۔

متعلقہ صحافی اور اخبار نے اس اسٹوری کے حوالے سے اپنے مو?قف پر قائم رہنے کے ساتھ ساتھ یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ وہ اپنے ذریعے کا انکشاف نہیں کریں گے، ذریعے کا تحفظ ایک چیز ہے جبکہ یہ ثابت کرنا کہ اسٹوری درست ہے دوسری چیز ہے لیکن جب ایک فوج جیسا ادارہ کہہ رہا ہو کہ یہ اسٹوری فیڈڈ ہے، تو اس سے واضح طور پر ظاہر ہورہا ہے کہ انہیں ذریعہ، اس کی ساکھ اور مستند ہونے پر شک ہے۔

2010ءمیں تمام میڈیا اسٹیک ہولڈرز پر مشتملایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کوجس کی قیادت جناب حمید ہارون کر رہے تھے، اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، جب ایک نجی ٹیلی ویڑن چینل اور اس کے کورٹ رپورٹر نے اعلیٰ عدالتوں کے ان ججز جو کہ وکلاء کی کامیاب تحریک کے نتیجے میں بحال ہوئے تھے، کے ممکنہ ڈی نوٹی فائیڈ ہونے سے متعلق ایک اسٹوری چلادی، حالانکہ حکومت نے اس اسٹور ی کے حوالے سے واضح تردید جاری کی، لیکن ججز اس سے مطمئن نہ ہوئے، جس پر حکومت نے یہ کمیشن تشکیل دیا۔

اپنے ایک ا?بزویشن میں کمیشن نے صحافیوں کو حکم دیا کہ وہ بنیادی صحافتی اسٹینڈرڈ پر عمل کرتے ہوئے اپنی اسٹوریز کی ڈبل چیکنگ کریں اور براہ راست معلومات نہ ہونے کی صورت میں کئی ذریعہ سے اس کی تصدیق کریں۔

میرمرتضیٰ بھٹو قتل کیس میں ایک تین رکنی اعلیٰ اختیاراتی عدالتی کمیشن نےپوسٹ مارٹم رپورٹ سے متعلق خبر کا ذریعہ بتانے کے لیے ڈان کے رپورٹر سرفراز احمد کو طلب کیا، تاہم انہوں نے اس سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی اسٹوری پر قائم ہوں، یہاں تک کہ کمیشن کی باربار درخواست اور وارننگ پر بھی رپورٹر اپنے ذریعے کو بچانے پر مصر رہا اور کمیشن نے ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔

جن دنوں راقم ایک ایوننگ اخبار میں کام کرتا تھا توپیپلز پارٹی کے پھانسی پانے والے ایک کارکن ایاز سموں کے کیس میں ایک بار ایک فوجی عدالت نے راقم کو طلب کیا، معاملہ ایازسموں کی گرفتاری کی تاریخ سے متعلق تھا جوکہ راقم نے اپنی خبر میں دیا تھا ،عدالت یہ جاننا چاہتی تھی کہ یہ خبر مجھے کس پولیس افسر نے دی ہے، تاہم میں نے بتانے سے انکار کیا، اس کیس میں شریعت کورٹ کے ایک سابق جج جناب شفیع محمدی ایاز سموں کے وکیل تھے اور انہوں نے میرے موقف کا دفاع کیا۔

اب اگر موجودہ معاملے کو لیں تو اگر اسٹوری لیک ہوئی تو صحافی کا ذریعہ اجلاس میں شریک لوگوں میں سے کوئی ایک ہوسکتا ہے، جس سے یاتو سیرل نے رابطہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ اجلاس میں کیا ہوا تاکہ اس میں سے کچھ ملے یا پھر ذریعے نے خود ایسا کیا ہو۔

صحافی اپنے ذریعے کا اس لیے تحفظ کرتے ہیں کیونکہ رائٹس آف انفارمیشن لاء کی عدم موجودگی میں خبر حاصل کرنے کا یہ واحد ذریعہ ہوتا ہے، اگر صحافی اپنے ذرائع بتانا شروع کردیں تو پھر وہ کبھی بھی اپنے ذرائع بنانے کے قابل نہیں رہیں گے۔

اب حکومت، فوج، اخبار اور صحافی کی ساکھ داﺅ پر ہے،پریس کونسل آف پاکستان جب اس معاملے کو اٹھائے گی تو اسے ان تمام پہلوﺅں کو اپنے ذہن میں رکھنا ہوگا، سب سے بہتر مثال کوئی اگر دینا ہو تو وہ جدوجہد ا?زادی کے عظم رہنما مولانا حسرت موہانی کی دی جاسکتی ہے، جو خود ایک ہفت روزے کے پبلشر بھی تھے، انہیں برطانوی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ایک تنقیدی کالم لکھنے والے کالم نگار کا نام نہ بتانے پر پانچ برس کی سزا سنائی گئی، ان پربھاری جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔

انہوں نے اپنا پریس اور کتابیں فروخت کردیں لیکن اپنے لکھاری کا تحفظ کیا، اگر آپ حقیقتاً اپنے معتبر ذرائع کو بچانا چاہتے ہیں تو آپ کو ہمیشہ ایک قیمت ادا کرنا ہوتی ہے لیکن بالآخر اسٹوری کی کامیابی کا انحصار حقائق، درست معلومات اور صداقت پر ہے۔(بشکریہ جیو نیوز)
(رائٹر جیو، دی نیوز اور جنگ کے سنیئر کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں)