مسلمان ممالک نے پاکستانی جے ایف تھنڈر پر نظریں جمالیں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 08, 2016 | 16:17 شام

اسلام آباد (شفق ڈیسک) سعودی عرب کی فضائیہ جس کو (رائل سعودی ائرفورس) بھی کہا جاتا ہے۔ رائل سعودی ائر فورس نے پاکستانی جے ایف 17 تھنڈر لڑاکا طیاروں میں دلچسپی کا اظہار کر دیا ہے اور یہ طیارے بڑی تعداد میں خریدنے کی خواہش مند بھی ہے میڈیا رپورٹس کیمطابق سعودی فضائیہ کے سربراہ میجر جنرل محمد صالح العتیبی نے دو روز پہلے پاکستان کا دورہ کیا تھا تاہم پاک فضائیہ کے ذرائع سے اب تک اسکی کوئی تصدیق نہیں ہو سکی۔ قبل ازیں پاکستان میں سعودی عرب کے موجودہ سفیر عبداللہ مرزوق الظہرانی کے حوالے سے بھی ایسی خبریں آچکی ہیں کہ سعودی حکومت، پاکستانی دفاعی مصنوعات میں دلچسپی لے رہی ہے لیکن یہ پہلا موقعہ ہے کہ جب خاص طور پر سعودی فضائیہ کیلئے جے ایف 17 تھنڈر کی ممکنہ خریداری سے متعلق کوئی خبر شائع ہوئی ہے۔ جبکہ دفاعی تجزیہ نگار اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سعودی فضائیہ کے بھاری لڑاکا طیاروں میں ایف 15، یورو فائٹر ٹائفون اور پاناویا ٹورنیڈو شامل ہیں جبکہ ہلکے لڑاکا طیاروں میں اس کے پاس پرانی قسم کے ایف 5 ای ٹائیگر II ہی موجود ہیں جو نارتھروپ گرومین کے تیار کردہ ہیں۔ چونکہ پاکستان کا جے ایف 17 تھنڈر ہلکے اور کثیر المقاصد لڑاکا طیاروں ہی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لئے ممکنہ طور پر یہ سعودی فضائیہ میں ان ہی پرانے ایف 5 لڑاکا طیاروں کی جگہ لے گا۔ پاکستانی تھنڈر کی خریداری سے سعودی فضائیہ کو بیک وقت دو فائدے ہوں گے ایک یہ کہ اخراجات میں کمی اور جدید طیاروں کا حصول ہو گا۔ یہ بات اس لئے بھی درست ہے کیونکہ جے ایف 17 تھنڈر میں نہ صرف جدید ترین ریڈار نصب کرنے کی تیاری ہے بلکہ یہ حدِ نظر سے دور تک، فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں (BVRAAM) سے بھی لیس کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں اسے استعمال میں رکھنے کی لاگت (آپریشنل کاسٹ) بھی بہت کم ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سعودی عرب، پاکستان سے دو نشستوں والے ’’جے ایف 17 بی‘‘ خریدے تاکہ انہیں اپنے پائلٹوں کی تربیت کے علاوہ زمینی اہداف کے خلاف مخصوص کارروائیوں میں بھی استعمال کرسکے۔ واضح رہے کہ ’’جے ایف 17 بی‘‘ کی اولین پروازیں اس سال کے اختتام تک متوقع ہیں۔ یہ امکان بھی بعید از قیاس نہیں کہ سعودی عرب، پاکستان سے دونوں طرح کے (یک نشستی اور دو نشستی) جے ایف 17 لڑاکا طیارے بتدریج خریدنا چاہتا ہو۔ یہ نکتہ اس لئے بھی قابلِ توجہ محسوس ہوتا ہے کیونکہ اس وقت شام میں حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی افواج کو مسلسل مزاحمت کا سامنا ہے۔ حوثی باغیوں کے خلاف فضائی کارروائیاں سب سے موثر ثابت ہو رہی ہیں لیکن اس ضمن میں امریکی اور یورپی لڑاکا طیاروں کے اخراجات سعودی عرب پر بھاری اقتصادی بوجھ کے طور پر مسلط ہیں جسے سعودی عرب کم کرنا چاہتا ہے اور سعودی حکام کا خیال ہے کہ ایک طرف تو امریکہ اور یورپ لڑاکا طیارے بھاری معاوضے پر دیتے ہیں اور ساتھ اپنی شرائط بھی منواتے ہیں۔ سعودی حکام کا کہنا ہے کہ اب امریکہ اور یورپ کے نخرے پیسے دیکر بھی نہیں اٹھائے جاسکتے۔