بچوں کوتعلیم دلوانے میں پیش آنے والے مسا ئل اور ان کا حل۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 07, 2017 | 16:26 شام

لاہور(مہرماہ رپورٹ):پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 25-اے حکومت پر لازم قرار دیتا ہے کہ وہ 5 سے 16سال تک کے بچوں کو مفت معیاری تعلیم کی فراہمی یقینی بنائے۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں حکومتیں جیسے دیگر عوامی مسائل سے بے اعتنائی برتتی رہیں، تعلیم کا بھی ویسا ہی حال ہے۔ حالاں کہ دنیا بھر میں بچوں کی تعلیم و تربیت پر حکومت اور والدین کی طرف سے خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور قومی بجٹ میں اس شعبہ کے لئے خصوصی فنڈز بھی رکھے جاتے ہیں، یہاں تک کے حال ہی میں پیش کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق کوریا کے گھرو

ں میں مجموعی خرچ کا 70 فیصد حصہ بچوں کی تعلیم پر خرچ ہوتا ہے۔ شعبہ تعلیم کی بہتری کے لئے حکومتی اقدامات جس قدر بھی ناقص ہوں مگر آج ہر والدین اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے وہ اپنی عمر بھر کی جمع پونجی بھی خرچ کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ کئی مرتبہ والدین سخت اور مشکل حالات میں بھی بچوں کی تعلیم کے لیے بڑے سے بڑا خرچ برداشت کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔

والدین بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے بیرون ملک بھیجنے کے لیے اپنا گھر بار تک فروخت کر دیتے ہیں۔ ایشیاء کے ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ چین، جنوبی کوریا، تائیوان، ہانگ کانگ، سنگا پور، بھارت، انڈنیشیا اور پاکستان جیسے ممالک میں والدین بچوں کی تعلیم پر بہت زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ پرائیویٹ سکولوں کی تعداد بڑھ گئی ہے جن میں گھنٹوں تک چلنے والی مہنگی ٹیوشن کے علاوہ دیگر سرگرمیوں کی فیس بھی والدین کے سر ہوتی ہے۔ زیادہ تر لوگوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کا بخار چڑھا ہے۔ اسی لئے صرف درمیانہ طبقہ ہی نہیں بلکہ مزدور طبقے کے لوگ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے بہترین تعلیم حاصل کر کے معاشرے میں اپنا مقام بنائیں اور اس کے لیے وہ قرضوں میں بال بال ڈوب جاتے ہیں، جو بعض اوقات ان کے لئے واپس کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن یہاں ہمارے مضمون کا عنوان ناقص تعلیمی نظام یا حکومتی غفلت نہیں بلکہ بچے کو سکول داخل کروانے کی درست عمر کا تعین کرنا ہے۔

دنیا بھر میں آج ہر ملک میں ’’تعلیم ہر بچے کا حق ہے‘‘ کا جھنڈا لہراتا نظر آتا ہے، مگر بچوں کو سکول بھجوانے کی درست عمر کیا ہونی چاہیے؟اس بارے میں سوائے حکم نامہ جاری کرنے کے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی یا مشاورتی سیشن پر توجہ نہیں دی جاتی۔ عمر کے لحاظ سے بچوں کو سکول داخل کروانے کی حد ہر ملک میں مختلف ہے۔ پاکستان کے قانون کے مطابق یہاں بچوں کو 5 سال سے سکول داخل کروانے کی عمر شروع ہوجاتی ہے، شمالی آئر لینڈ میں بچوں کو 4 سال کی عمر میں سکول داخل کروانا لازمی ہے۔ امریکہ، برطانیہ، سکاٹ لینڈ، ہالینڈ اور آسٹریلیا میں 5 سال، آسٹریا، بیلجیئم، چیکو سلوواکیہ، فرانس اور سپین میں 6 سال جب کہ سویڈن میں 7 سال تک کی عمر کے بچوں کو سکول بھجوانے کی پابندی عائد کی جاتی ہے۔

بچوں کی ذہنی سطح کو جانچے بغیر انہیں کبھی چھوٹی تو کبھی بڑی عمر میں سکول میں بھرتی کرا دیا جاتا ہے، جو کسی طور پر بھی درست عمل نہیں، کیوں کہ دونوں صورتوں میں نقصان بچوں کا ہی ہوتا ہے۔ ایک بچے کی ذہنی سطح اور دیگر صلاحتیں دوسرے سے قطعی مختلف ہوتی ہیں، اس کی نشوونما اور بڑھوتری کی رفتار مختلف ہوتی ہے، تو پھر ایسے میں ایک ہی قانون کے تحت انہیں کیسے ایک خاص عمر میں سکول داخل ہونے پر مجبور کیا جا سکتا ہے؟۔ ماہرین کے مطابق چھوٹی عمر کی وجہ سے بچوں پر پڑنے والا دبائو بعض اوقات ساری زندگی انہیں پڑھائی کے میدان میں کمزور کئے رکھتا ہے جبکہ زیادہ عمر ہونے کی صورت میں بچہ اپنا قیمتی وقت ضائع کر دیتا ہے۔

پاکستانی معاشرہ میں جہاں بچوں کی تعلیم ہی کو اب کچھ اہمیت ملنا شروع ہوئی ہے، وہاں بچوں کو سکول بھجوانے کی عمر کا درست تعین کرنے کے لئے مباحثوں یا مذاکروں کی طرف تو جلدی سے ذہن ہی نہیں جاتا۔ لیکن ترقی یافتہ ممالک کے خواندہ معاشروں میں ایسا نہیں ہے۔ دو ماہ قبل ستمبر کے مہینے میں برطانیہ کے 130ماہرین تعلیم نے اپنی حکومت کو ایک خط لکھا جس میں بچے کو 5 سال کی عمر میں سکول داخل کروانے کی پابندی پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ برطانوی ماہرین تعلیم کے مطابق بچے کی پرائمری تعلیم 6 یا 7 سال سے شروع کی جائے کیوں کہ 5 سال کی عمر میں داخلہ بہت جلدی ہے، 5 سال کی پابندی بچے کو تعلیمی لحاظ سے بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے اور بچوں کے سیکھنے کے عمل میں یہ پابندی ان میں خوف اور دبائو پیدا کرے گی۔

کسی خاص عمر کو پہنچنے پر بچوں کو ہر صورت سکول داخل کروانے کا حکومتی یا والدین کا رویہ درست نہیں بلکہ انہیں سیکھنے کے فطری عمل کے مطابق پروان چڑھنے کا موقع دیا جانا چاہیے، جس میں مشاہدات اور سوالات کرنے کی عادت انہیں مدد فراہم کرتی ہے۔ سیکھنے کا عمل جہد مسلسل کا نام ہے یہ کسی سکول میں داخل یا فارغ ہونے سے مکمل نہیں ہوتا۔ گھر، کسی بھی بچے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے، لہذا یہ ضروری ہے کہ بچوں کو زبردستی ایک طے شدہ عمر میں سکول بھجوانے کے بجائے گھر پر والدین ان کی اس انداز میں تربیت کرے کہ بچے نہ صرف بخوشی سکول جائیں بلکہ وہاں خود کو سنبھال بھی سکیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔ اس لئے والدین کو اپنے بچے میں پیدا ہونے والی جسمانی اور ذہنی تبدیلوں سے آگاہی ہونی چاہیے تاکہ وہ بچہ خود کو تنہا نہ سمجھے اور اپنے مسائل کا حل والدین کے ساتھ مل کر تلاش کرے۔ والدین کا دوستانہ رویہ بچے کے شخصی خدوخال میں خود اعتمادی پیدا کرتا ہے۔

جب بچے کا سکول میں داخلہ ہوتا ہے تو اس کے دن بھر کے معمولات میں کافی تبدیلی آ جاتی ہے، جیسے صبح سویرے اٹھ کر سکول جانا، پڑھائی کے لئے تیار ہونا وغیرہ۔ ایک دم سے پرانی روش سے نئی جانب جانا بعض اوقات بچوں کے لئے پریشانی اور الجھن کا باعث ہوتا ہے، جس کے لئے والدین کو انہیں ذہنی طور پر تیار کرنا ضروری ہے۔ شروع میں بچے سکول جانے سے کتراتے ہیں اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ماں سے دور ہو جانے کا خوف ان کے ننھے ذہن کو الجھا دیتا ہے، ایسے وقت میں اسے والدین کی مدد اور سپورٹ کی اشد ضرورت ہوتی ہے، اس کو ڈانٹ ڈپٹ کر سکول بھیجنے کے بجائے پیار سے سمجھانا چاہیے۔ بچے سے محبت اور شفقت اپنی جگہ لیکن کسی مجبوری یا ضرورت کے تحت غیر محسوس طریقے سے اسے والدین سے دور رہنے پر بھی آمادہ کیا جائے۔ اسے سکول سے متعلق مثبت باتیں بتائیں جو اس کے پہلے دن کے خوف کو دْور کرنے میں مددکر سکیں۔ اسے بتائیں کہ سکول میں اس کا اچھا وقت گزرے گا۔ نئے نئے دوستوں سے ملاقات ہو گی۔ پلے لینڈ کی طرح جھولے ہوں گے۔ نئی اور رنگین کتابیں ہوں گی۔ اس کے پسندیدہ کارٹون کردار کی تصویر والا سکول بیگ بھی اس کو دلوایا جائے گا۔

سکول سے واپسی پر اس کے اچھے برتائوکا انعام اس کی پسندیدہ جگہ پر لے جانا ہو گا۔ اس نفسیاتی کونسلنگ کی بدولت بچہ سکول سے مانوس ہو گا اور کلاس کے ماحول میں خود کو پُر اعتماد محسوس کرے گا۔ بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے، جب وہ چھوٹے ہوتے ہیں کیوں کہ اس وقت وہ مثبت رویے اور بنیادی صلاحیتوں میں ترقی کر رہے ہوتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو پڑھ کر سنائیں اور ان کے خیالات کے بارے میں گفتگو کریں، چاہے وہ خیالات فوری طور پر سمجھ نہ آسکیں۔ بچہ جس زبان میں بھی سہولت محسوس کرتا ہے اسی زبان کو استعمال کیا جائے۔ بچے سے روز مرہ کے عام مسائل اور ان کے حل کے بارے میں بات کی جائے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ بچے کو سوچنے کا وقت ملے، بعض اوقات یہ سوچنے میں وقت لگتا ہے کہ آگے کیا کہے، آپ کے بچے نے کیا کہنا ہے، اس کے انتظار کے لئے تیار رہیں۔ ایسے سوالات کریں جو بچے کو اپنے خیالات کے بارے میں بات کرنے کی طرف لے جائے۔ بچے کے ساتھ مطالعہ کرتے ہوئے ایسے سوالات پوچھیں، ’’ایسا کیوں ہوا‘‘ ’’آگے کیا ہو سکتا ہے‘‘ یہ سوالات بچے کے ذہن میں برقی رو کا کردار ادا کرتے ہیں۔

بلاکس جمع کرتے ہوئے یا تصاویر بناتے ہوئے بچے کو کھیل ہی کھیل میں پڑھائی کی طرف راغب کریں۔ بچے میں برداشت کے پہلو کو بہت زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ یہ صلاحیت اسے زندگی میں بہت سی مشکلات اور پریشانیوں سے بچا لیتی ہے۔ ایک بچہ چاہے اپنی بات دوسرے کو سمجھانے کے قابل نہ ہو لیکن دوسروں کی بات خود سمجھنے کے قابل ہو جائے تو یہ اس بات کی نوید ہے کہ اب وہ سکول جانے کے لئے پوری طرح تیار ہے۔ بچوں کو سکول داخل کرانے کا مقصد حاصل کرنے کے لئے اساتذہ بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لہذا کے جی، پلے گروپ، مونیٹسوری، پریپ یا پہلی جماعت کے بچوں کے لئے تعینات اساتذہ کی علمی قابلیت، سروس سٹرکچر اور ٹریننگ الگ سے مقرر کی جائے، تاکہ بچے بخوشی سکول آنا پسند کریں۔ درجہ بالا بحث سے یہ تو طے ہے کہ سب بچوں کو ایک ہی مقررہ عمر میں سکول داخل کروانے کا عمل درست نہیں لیکن ماہرین تعلیم کی ایک بہت بڑی تعداد کا یہ کہنا ہے کہ 3 سے 6 سال کی عمر میں جب بھی بچہ ذہنی طور پر تیار ہو جائے اسے سکول ضرور داخل کروا دینا چاہیے۔۔