جس نے خود کو حقیر جانا وہی بلند مرتبہ کا حامل ہوا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 28, 2017 | 10:55 صبح

لاہور(سید اسامہ اقبال)جس نے خود کو حقیر جانا وہی بلند مرتبہ کا حامل ہوا
اس ننھے قطرے نے جب دریا کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ کیا تو اسے اپنی ذات نہایت حقیر محسوس ہوئی۔ وہ سوچنے لگا کہ اتنے بڑے دریا کے مقابلے میں بھلا میری کیا ہستی ہے

حکایاتِ سعدی:
حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ پانی کا ایک ننھا سا قطرہ بادل سے ٹپکا اور دریا میں آن گرا۔ اس ننھے قطرے نے جب دریا کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ کیا تو اسے اپنی ذات نہایت حقیر محسوس ہوئی۔ وہ سوچنے لگا کہ اتنے بڑے در

یا کے مقابلے میں بھلا میری کیا ہستی ہے ؟ میں تو کسی شمار میں نہیں آ تا، باقی بھی رہا تو کیا فنا بھی ہوگیا تو کیا؟ قطرے میں یہ تمام باتیں نہایت عجزہ انکساری سے سوچی تھیں ایک صدف نے اسے منہ کھول کر اپنے اندر کر لیا اور پھر اس کی پرورش کرکے اسے ایک قیمتی موتی بنادیا۔ 

یقینا اسے یہ اعزاز و مرتبہ اس لئے حاصل ہوا کہ اس نے خود کو حقیر جانا اور جس نے خود کو حقیر جانا وہی بلند مرتبہ کا حامل ہوا۔ 
مقصود بیان: حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ اس حکایت میں عجزوانکساری کے متعلق بیان کرتے ہیں جو عاجزی کے ساتھ رہتا ہے وہ یقینا اللہ عزوجل کے قرب کا حقدار ٹھہرتا ہے اور عاجزی اللہ عزوجل کو بہت پسند ہے۔ معراج کی سب حضور نبی کریم ﷺ جو تحفہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں لے کر گئے وہ عاجزی کا تحفہ ہی تھا۔