صحافت کی تاریخ پر زابر سعید بدرکی کتاب' صحافت سے ابلاغیات تک' پر انور سدید کا تبصرہ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 03, 2017 | 18:13 شام

صحافت کی تاریخ پر زابر سعید بدرکی کتاب' صحافت سے ابلاغیات تک' پر نامور محقق اور اردو ادب کی تاریخ کو مرتب کرنے والے ڈاکٹر انور سدید کا تبصرہ جو نوائے وقت میں 30 جنوری 2011 کو شائع ہوا۔ اس کتاب کے درجنوں اڈیشن شائع ہو چکے ہیں اس کتاب کا انگریزی ایڈیشن بھی(میڈیا ہسٹری لاء اینڈ ایتھک) شائع ہو چکا ہے اللہ کی رحمت سے زابر سعید بدرکی یہ کتابیں نصاب میں شامل ہیں۔ میڈیا کی تاریخ، قوانین اور ضابطہ اخلاق پر زابر سعید بدرکی ان کے علاوہ بھی متعدد کتابیں موجود ہیں جیسا کہ اردو صحافت تاریخ و ف

ن میڈیا قوانین اور ضابطہ اخلاق شاہان مغلیہ اور صحافت(زیر طبع) زابر سعید بدرکے دادا استاد محترم جناب ڈاکٹر عبدالسلام خورشید،استاد محترم جناب ڈاکٹر مسکیںن علی حجازی کے تحقیقی کام کو آگے بڑھانے کی جسارت کی مزید براں ڈاکٹر طاہر مسعود اور ڈاکٹر افتخار نے بھی اس حوالے سے بہت کام کیا ہے ان سے بھی رہنمائی لی۔ جناب ڈاکٹر سلیم اختر جناب ڈاکٹر انور سدید کے مشفقانہ مشورے شامل حال رہے۔صحافت سے ابلاغیات تک کا پہلا ایڈیشن 2009 میں منظر عام پر آیا اس میں پہلی مرتبہ 200 سال پرانے اخباروں کے عکس دیے گئے جو زابر سعید بدرکی ذاتی لائبریری میں موجود ہیں چند ایک پنجاب پبلک لائبریری، دیال سنگھ،پنجاب یونیورسٹی لائبیریری سے ملے،زابر سعید بدرنے انڈیا سے بھی کتب حوالوں کے لئے منگوائی۔کتاب کے دیباچے کا آغاز زابر سعید بدرنے کچھ اس طرح کیا کہ 'سب سے پہلی خبر خود اللہ کریم نے فرشتوں کو دی کہ میں ایک بشر تخلیق کرنے والا ہوں، انور سدید اس پر بہت خوش ہوئے۔ زابر سعید مختلف آرکائیو کو تلاش کرنے کے حوالے سے ڈسٹ الرجی کا شکار بھی ہوئے ۔ کتاب میں اور کتاب کے آخر میں 70 صفحات پر مشتمل آرکائیو دی۔جہاں سے بہت سے لوگ اپنی کتابوں میں شامل کر رہے ہیں اور حوالہ دینے کی زحمت نہیں کرتے۔ کتاب میں مغل دور میں صحافت کے حوالے سے ایک باب موجود ہے جو صحافتی تاریخ کی کسی کتاب میں اس سے پہلے نہیں تھا اس پر زابر سعید بدرکی کتاب جلد شائع ہو جائے گی۔انشا اللہ ڈاکٹر انور سدید نے یہ تبصرہ 82 سال کی عمر میں لکھا۔ صحافت سے ابلاغیات تک/محمد زابر سعید بدر ڈاکٹر انور سدید نے اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ”صحافت سے ابلاغیات تک“ جناب محمد زابر سعید کی ایک تکنیکی موضوع پر تالیف لطیف ہے جس میں انہوں نے ”آغاز صحافت“ سے ”انٹرنیٹ کی وسعتوں“ تک کا جائزہ تفصیل سے لیا ہے۔ مجھے اس کتاب کے موضوع نے سب سے پہلے اپنی طرف راغب کیا کہ اس سے پہلے اس موضوع پر کوئی کتاب میری نظر سے نہیں گزری تھی۔ اس کتاب کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ زابر سعید نے انگریزی زبان کی اس نوع کی معلوماتی کتابوں اور انگریزی انسائیکلوپیڈیا پر انحصار نہیں کیا اور ملک کی مختلف لائبریریوں سے ماخذات تلاش کرکے اپنی معلومات کو خالص پاکستانی زاویئے سے پیش کرنے کی کاوش کی ہے۔ اس ضمن میں کتاب کا پہلا باب ”صحافت آغاز و ارتقاء“ بے حد اہم ہے کہ اس میں تاریخ اسلام میں خبر رسانی کے علاوہ مغلیہ دور کی وقائع نگار تک کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ایک باب برصغیر کی ابتدائی صحافت کے بارے میں ہے جس کے تسلسل میں برصغیر پاک و ہند میں مسلم صحافت کا جائزہ سامنے لایا گیا ہے۔ اس بات میں متعدد اخبارات کے تذکرے کے ساتھ سرسید احمد خان‘ ابوالکلام آزاد‘ محمد علی جوہر‘ ظفر علی خان‘ حمید نظامی اور میر خلیل الرحمن کے علاوہ متعدد نامور صحافیوں کی منفرد صحافتی جہات پیش کی گئی ہیں۔ ایک باب میں دو قومی نظریئے اور تحریک پاکستان کے بارے میں صحافتی خدمات کا تذکرہ سامنے لاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ زابر سعید نے ادب‘ صحافت اور سیاست کے متنازعہ امور کو بھی اہمیت دی ہے اور ان میں پاکستانی نقطۂ نظر اُجاگر کرنے کی سعی کی ہے۔ اس ضمن میں ”مسلم اخبارات جنہوں نے تحریک پاکستان کی مخالفت اور کانگرس کی ہم نوائی کی“ بے حد اہم ہے۔ ”صحافتی قوانین‘ پاکستان کے مختلف ادوار حکومت میں آزادی صحافت‘ پاکستان میں ریڈیو ٹی وی اور فلم‘ عصر حاضر کا طلسم ہوشربا ”انٹرنیٹ“ جیسے ابواب میں قیمتی اور نایاب معلومات جمع کر دی گئی ہیں۔ اب میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ کتاب صحافت کے بارے عہد قدیم سے عہد جدید تک معلومات کا خزینہ ہے اور مصنف زابر سعید کا ذہن ”انسائیکلوپیڈیک“ قرار دیا جا سکتا ہے