طیبہ تشدد کیس: کالے کوٹ والوں نے سیشن جج کو کس طرح صفائی کے ساتھ بچا لیا ؟ مقدمہ کی سماعت کی تفصیلات جان کر آپ بھی بخوبی سمجھ جائیں گے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 11, 2017 | 09:24 صبح

راولپنڈی (ویب ڈیسک) دس سالہ کمسن ملازمہ طیبہ پر تشدد کے مقدمے میں نامزد ملزمان سابق ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی اور اُن کی اہلیہ ماہین ظفر کی عبوری ضمانت میں توسیع کے معاملے پر جمعہ  کے روز اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت میں سماعت تھی۔

سماعت سے پہلے کمرہ عدالت اور عدالت کے باہر جہاں بھی نظر جاتی وہاں وکیل ہی وکیل نظر آتے۔ اتنے وکیل تو اس وق

ت نظر نہیں آئے جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی نظربندی کے کیس میں گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج راجہ آصف علی جب کمرہ عدالت میں پہنچے تو کمرہ پہلے سے ہی وکلا سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کمرہ عدالت میں صرف دو ہی پولیس اہلکار تھے جن میں سے ایک عدالت کا اہلمد اور دوسرا اس مقدمے کا تفتیشی افسر تھا۔میڈیا سے تعلق رکھنے والے دو تین افراد ہی کمرہ عدالت میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور جب وکلا کو ان کے بارے میں معلوم ہوا تو اُنھوں نے عدالتی اہلمد سے کہا کہ اُنھیں فوری طور پر کمرہ عدالت سے نکال دیں تاہم پولیس اہلکار نے ان وکلا کی بات پر کوئی کان نہیں دھرا۔اس مقدمے کے مدعی اور متاثرہ لڑکی طیبہ کے والد محمد اعظم اور اس مقدمے کے ملزم راجہ خرم علی کو بھی وکلا اپنے حصار میں کمرہ عدالت میں لیکر آئے۔محمد اعظم کے چہرے سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسا کہ ان پر بہت زیادہ دباؤ ہے۔ عدالت نے لڑکی کے والد سے پوچھا کہ ہاں بھائی کیا کہنا چاہتے ہو جس پر اُنھوں نے کہا کہ اس مقدمے میں نامزد کیے گئے ملزمان نے ان کی بیٹی پر تشدد نہیں کیا اور اگر ایسا ہوا بھی ہے تو پھر بھی وہ اُنھیں ’اللہ کے واسطے‘معاف کرتا ہے۔اُنھوں نے اس بارے میں ایک بیان حلفی بھی جمع کروایا جس پر جج کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں تو اُنھوں نے کہا تھا کہ پہلا بیان حلفی اُن سے دباؤ میں لیا گیا تھا جس پر طیبہ کے والد کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں اُن کی طرف سے دیا گیا بیان دباؤ کا نتیجہ تھا۔ تاہم عدالت نے اُنھیں اپنے بیان حلفی کے بارے میں سوچنے کے لیے دو گھنٹے کا وقت بھی دیا۔گھریلو ملازمہ کے والد محمد اعظم وکلا کے سکواڈ میں ایک بار پھر جب عدالت میں پیش ہوئے تو اُنھوں نے فاضل جج کی طرف سے پوچھے گئے زیادہ تر سوالات کے جواب صرف سر ہلا کر دیے۔سابق ایڈیشنل سیشن جج اور اُن کی اہلیہ کو معاف کرنے سے متعلق تین بیان حلفی متعلقہ عدالت میں جمع کروائے گئے جن میں سے ایک طیبہ کے والد کی طرف سے جبکہ دوسرا طیبہ کی دادی اور تیسرا بیان حلفی طیبہ کی پھوپھی کی طرف سے دیا گیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اُنھیں صرف طیبہ کے والد کا ہی بیان حلفی چاہیے لیکن وکلا کا کہنا تھا کہ عدالت تمام بیان حلفی کو ریکارڈ کا حصہ بنائے۔سماعت کے دوران اس بات کا پتا چلانا بہت مشکل تھا کہ مدعی کے وکیل کون ہیں اور ملزمان کے وکیل کون کیونکہ دونوں ایک دوسرے کو سپورٹ کر رہے تھے۔مدعی مقدمہ کی وکالت راجہ ظہور نامی وکیل کررہے تھے جن کے بارے میں سپریم کورٹ میں اس واقعہ سے متعلق ازخود نوٹس کے سماعت کے دوران اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل نے کہا تھا کہ راجہ ظہور اس مقدمے کے ملزم راجہ خرم علی کے رشتہ دار ہیں۔فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل سلمان چوہدری کا کہنا ہے کہ ضمانت کے معاملے پر کسی بھی مقدمے کے مدعی کو بُلانے کی کوئی قانونی پابندی نہیں ہے۔اُنھوں نے کہا کہ صلح نامے کی وجہ سے اگرچہ اس مقدمے میں سابق ایڈیشنل سیشن جج کی ضمانت منظور ہو گئی ہے لیکن چائلڈ لیبر کے قوانین کے تحت اُنھیں قابل گرفت بنایا جا سکتا ہے۔پاکستان میں لیبر قوانین کے تحت 16 سال سے کمسن بچوں سے جبری مشقت قابل گرفت جرم ہے جبکہ طیبہ کی عمر دس سال کے قریب ہے۔اس مقدمے کی کوریج کے لیے میڈیا کے نمائمدوں کی ایک قابل ذکر تعداد موجود تھی۔ ٹی وی کیمروں کو دیکھ کر وکلا کی ایک بڑی تعداد اُن کی طرف بڑھی اور دھمکی دی کہ آگے اکر معزز جج کی فلم نہیں بنانی۔ کچھ کیمرہ مینوں نے آگے جانے کی کوشش کی تو ملزم کے حمایتی وکلا کا رویہ مزید سخت ہو گیا اور کہا کہ’ہٹ جاو کیونکہ یہ جج کی عزت کا معاملہ ہے۔عدالت کے طرف سے ضمانت کی تصدیق ہونے کے بعد وکلا ملزم کو اپنے حصار میں نامعلوم مقام پر لے گئے