ٹرمپ عداتی فیصلے سے شرمندہ بندوقوں کا رخ پاکستان کی طرف کردیا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 30, 2017 | 04:40 صبح

واشنگٹن (مانیٹرنگ) امریکی وائٹ ہائوس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے دعویٰ کیا ہے مستقبل میں پاکستان کو بھی امیگریشن پر پابندی والی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ وائٹ ہائوس کے چیف آف سٹاف رائنس پریبس نے امریکی ٹی وی سی بی ایس نیوز کو انٹرویو میں بتایا مستقبل میں اس بات کا امکان ہے کہ پاکستان کو بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا جائے جن پر امیگریشن کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا ہم نے پابندیوں کے لئے ان سات ملکوں کو چنا ہے جن کا کانگریس اور اوباما انتظامیہ نے انتخاب کیا ہے۔ ان 7 ملکوں

میں دہشت گردی کے خطرناک واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا اب دوسرے ممالک کو بھی پوائنٹ آئوٹ کیا جا سکتا ہے جہاں اسی طرح کے مسائل ہیں جیسا کہ پاکستان اور دیگر ممالک لیکن شائد ہمیں ایسا کرنے کی بعد میں ضرورت پڑے۔ امریکی عدالت نے صدر ٹرمپ کے اس حکم نامے پر عبوری عملدرآمد روک دیا ہے جس کے تحت 7 مسلمان ملکوں سے پناہ گزینوں کی امریکہ آمد پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ عدالت نے ایئرپورٹ پر روکے گئے مسلمان تارکین وطن کی بے دخلی روک دی ہے یہ حکم نیویارک کے علاقے بروکلین کی ایک عدالت نے جاری کیا۔ درخواست امریکن سول لبرٹیز یونین کی جانب سے دائر کی گئی تھی جس پر امریکی عدالت نے تارکین وطن کو بے دخل کرنے کے خلاف حکم جاری کیا۔ اے سی ایل یو نے کہا کہ جج کے سٹے آرڈر سے ان لوگوں کی ملک بدری رک گئی ہے جو اس حکم نامے کی زد میں آ گئے تھے۔ اس دوران ہزاروں افراد کا مختلف امریکی ریاستوں میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امیگریشن کے بارے میں حکم نامے کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ نیویارک اور وائٹ ہاؤس کے سامنے بڑی تعداد میں لوگوں نے احتجاج کیا۔ امریکی ’’السلام علیکم‘‘ کے پلے کارڈ اٹھائے ہوائی ا ڈوں پر پہنچ گئے۔ ہوائی اڈوں پر مظاہرین کی بڑی تعداد نے پناہ گزینوں کے حق میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔ اس حکم نامے کے تحت، جس پر انہوں نے جمعہ کو دستخط کیے تھے، امریکہ کا پناہ گزینوں کا پروگرام معطل کر دیا گیا تھا اور عراق، ایران، شام، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، اور یمن کے شہریوں کی امریکہ آمد پر 90 دن کی پابندی لگا دی تھی۔ وہ لوگ جو اس دوران سفر کر رہے تھے، انہیں امریکہ آمد پر حراست میں لے لیا گیا تھا، چاہے ان کے پاس جائز ویزا اور دوسری دستاویزات نہ ہوں۔ جج این ڈونیلی کے فیصلے کے بعد ان لوگوں کی ملک بدری رک گئی ہے جن کے پاس پناہ گزینی کی منظور شدہ درخواستیں، منظور شدہ ویزا، یا امریکہ میں داخلے کے لیے درکار دوسری قانونی دستاویزات موجود تھیں۔ امیگرینٹس کے حقوق کی تنظیم آئی آر پروجیکٹ کے ڈپٹی لیگل ڈائریکٹر نے کہا عدالت کے باہر جمع ایک ہجوم نے نعرے لگا کر اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے ہجوم کو بتایا کہ جج نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ ان لوگوں کے ناموں کی فہرست فراہم کرے جنہیں حراست میں لیا گیا ہے۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہر شخص کو قانونی مدد فراہم کی جائے اور اسے حراست سے نکال لیا جائے۔ اسے واپس خطرے میں نہیں بھیجا جائے گا۔ اے سی ایل یو کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اینتھونی رومیرو نے کہا یہ یادگار دن ہے۔ جس دن انہوں نے ایگزیکیٹو آرڈر جاری کیا، ہم انہیں اسی دن عدالت میں لے گئے تھے۔ کہ یہ غیرآئینی اور غیر امریکی قدم ہے، امریکی میڈیا کا کہنا ہے ایگزیکٹو آرڈر کے بعد 100 سے 200 افراد کو مختلف ایئرپورٹس پر روک لیا گیا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے پاکستان، افغانستان، ملائیشیا، عمان، تیونس اور ترکی امریکی پابندی سے متاثر نہیں ہوں گے جبکہ گرین کارڈ رکھنے والوں کو امریکا میں واپسی سے پہلے امریکی سفارتخانے یا قونصل خانے سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ادھر کینیڈا نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سات مسلم ممالک کے باشندوں پر اپنے ملک میں داخلے کی پابندی کے بعد ان ممالک کے پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں پناہ دینے کی پیشکش کر دی۔ چینی خبررساں ادارے کے مطابق کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹریڈیو نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ ہم امریکی صدر کے ایگزیکٹو آرڈر کی زد میں آنے والے ان سات ممالک کے پناہ گزینوں کا اپنے ملک میں خیر مقدم کریں گے یہ افراد اپنے ملک میں ظلم و ستم، دہشت گردی اور جنگ سے بھاگ کر آئے ہیں ہمارے دروازے ان کے لئے کھلے ہیں، انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے صدر ڈونلڈٹرمپ کی طرف سے پناہ گزینوں کیلئے امریکی سرحدیں بند کرنے کا حکم نامہ بہت زیادہ نقصان کا باعث ہوگا۔ ہیومن رائٹس واچ میں ایک سینئر امریکی محقق گریس منگ نے کہاکہ ٹرمپ کے حالیہ انتظامی حکم نامے سے ان لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں جو دہشت گردی اور تشدد سے بھاگ رہے ہیں۔ اے سی ایل یو کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر انتھونی نے ایک ٹوئیٹ میں کہا ٹرمپ کو پہلے ہی ہفتے عدالت میں شکست ہو گئی۔ عدالت نے ہنگامی فیصلے میں کہا متاثرہ لوگوں کو ’بڑے اور ناقابلِ تلافی نقصان‘ پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ اتوار کی صبح ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی نے کہا وہ عدالتی فیصلے پر عمل کریں گے تاہم صدر ٹرمپ کے حکم کو بھی نافذ کریں گے۔ ایگزیکٹو آرڈر برقرار ہے، ان افراد کو معمول سے زیادہ سکیورٹی سکریننگ سے گزارا جا رہا ہے۔ یہ مقدمہ ہفتے کے روز نیویارک کے جے ایف کے ہوائی اڈے پر دو عراقیوں کی جانب سے دائر کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک عراق میں امریکی فوج میں کام کرتے ہیں جب کہ دوسرے امریکی فوج کی کنٹریکٹ ملازم ہیں۔ اب ان دونوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ مقدمے کے اگلی سماعت دس فروری کو ہو گی۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا میرکل نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کو پناہ گزینوں پر پابندی لگانے کا جواز بنانا ٹھیک نہیں ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا کہ یہ فیصلہ تاریخ میں انتہا پسندوں اور ان کے حامیوں کے لئے ایک بڑے تحفے کے طور پر دیکھا جائے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز اپنے روسی ہم منصب ولادی میرپوتن سمیت کئی عالمی رہنماؤں سے فون پر بات چیت کی تھی۔ کریملن کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں ٹرمپ اور پیوٹن دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی بات چیت کی تفصیل جاری کی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ یہ بات چیت مثبت اور تعمیری تھی۔ بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی کے خلاف لڑنے، مشرق وسطیٰ، عرب اسرائیل تنازعے، دفاعی استحکام، جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ، ایران کے جوہری پروگرام، شمالی اور جنوبی کوریا اور یوکرین کی صورت حال جیسے مسائل پر بات چیت کی۔ اقوام متحدہ نے صدر ٹرمپ پر زور دیا ہے کہ وہ تارکین وطن کو خوش آمدید کہنے کی دیرینہ امریکی روایت برقرار رکھتے ہوئے ان کے ساتھ رنگ ونسل، قومیت اور مذہب سے بالاتر ہوکر مساوی سلوک کو یقینی بنائیں، یہ امید بھی ظاہر کی کہ ٹرمپ کی جانب سے پناہ گزینوں کے امریکہ داخلے پر پابندی عارضی ہوگی۔ اقوام متحدہ کی ترجمان سٹفینی ڈیوجیرک کا کہنا تھا امید ہے جلد ہی امریکہ کی جانب سے ایک بار پھر ان افراد کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ برطانوی وزیرِاعظم تھریسامے نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پناہ گزینوں پر عائد پابندی سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس کی وجہ سے برطانوی شہری متاثر ہوئے تو وہ امریکہ سے اپیل کریں گی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے داعش نے کے خلاف نئی حکمت عملی وضع کرنے کیلئے فوج کو 30دن کی مہلت دیدی۔ امریکی میڈیا کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں جس میں فوج کو 30 روز کی مہلت دی گئی ہے تاکہ داعش تنظیم کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے ایک نئی حکمت عملی وضع کی جائے۔ ایگزیکٹو آرڈر میں وزیر دفاع جیمس میٹس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ لڑائی کے قواعد و ضوابط کی تبدیلی کے حوالے سے ضروری ہدایات تیار کریں تاکہ داعش کے خلاف طاقت کے استعمال سے متعلق بین الاقوامی قانون سے تجاوز کرنے والے قواعد سے چھٹکارہ پایا جا سکے۔ برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے کہا ہے کہ ٹرمپ کی سفری پابندیاں غلط اور تقسیم کرنے والی ہیں، حکومت بیرون ملک سفر کرنے والے برطانویوں کی حفاظت کرے گی۔ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں مسجد کو آگ لگا دی تھی، ٹیکساس کے اسلامک سنٹر آف وکٹوریا کے ارکان نے مسجد کو دوبارہ تعمیر کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ مسجد میں چار گھنٹے بعد آگ کو بجھا دیا گیا ’’گو فنڈ می‘‘ نامی فنڈ سے 12 گھنٹوں میں مسجد کی دوبارہ تعمیر کیلئے ایک لاکھ ڈالر اکٹھے کر لئے۔ ٹرمپ کی جانب سے تارکین کے امریکہ میں پابندی کے حکم کے خلاف کئی ارکان کانگریس نے بھی سوالات اٹھائے ہیں تاہم سپیکر ایوان نمائندگان پال ریان نے فیصلے کی حمایت کی ہے۔ پال ریان کی خاتون ترجمان نے کہا یہ کسی بھی مذہب کے افراد پر پابندی نہیں۔ ریپبلکن رکن کانگریس چارلی ڈینٹ نے کہا یہ مضحکہ خیز ہے۔ میرے خیال میں حکم بغیر غور و فکر کے جاری کیا گیا۔ امیگریشن پالیسی سے بڑی بے چینی پھیلی ہے۔ انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ سے حکمنامہ فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ رکن کانگریس ایڈروئسی نے کہا میں حکم کی حمایت کرتا ہوں مگر آرڈر کے جاری ہونے کے وقت جو لوگ سفر میں تھے ان کے لئے کوئی حل نکالا جانا چاہیے۔ ایران نے ٹرمپ کے حکم نامے کے خلاف سوئٹزر لینڈ کے سفیر کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ سوئس سفیر گیلیو ایران میں امریکی مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں گیلیو کو بلا کر احتجاجی مراسلہ دیا گیا ہے۔ انڈونیشیا کی وزارت خارجہ نے کہا مسلمان تارکین کے خلاف کریک ڈائون سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو شدید نقصان پہنچے گا۔ ترجمان ارماناتھا ناصر نے کہا انتہا پسندی اور دہشت گردی کو کسی مذہب کے ساتھ جوڑنا غلط ہے ٹرمپ نے اتوار کے روز سعودی عرب، امارات اور شمالی کوریا کے سربراہوں سے فون پر بات کی ہے۔ عراقی رہنما مقتدی الصدر نے کہا امریکیوں کو عراق چھوڑ دینا چاہئے۔ خیال رہے ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک ہفتے کے دوران 17 ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کئے جن کے امریکہ کے اندر ا ور امریکہ سے باہر وسیع اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دستخط کے ساتھ ہیلتھ کیئر، امیگریشن، تیل نکالنے، اسقاط حمل، وفاقی بھرتیوں اور تجارت جیسے معاملات پر پالیسیاں تبدیل کی ہیں۔ امیگریشن وکیل تالیا انلینڈر لاس اینجلس ائر پورٹ پر ان لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش میں ہیں جن کو حراست میں لیا گیا ہے۔ برطانیہ میں آن لائن پٹیشن جس میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر کی حیثیت سے برطانیہ میں دال ہونے دیا جائے لیکن ان کو سرکاری دورہ کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے کیونکہ وہ سرکاری دورہ کر کے ملکہ برطانیہ کی شرمندگی کا باعث بنیں گے۔ رات گئے اس آن لائن پٹیشن کو تین لاکھ افراد نے سائن کر دئیے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس ایشو پر اب برطانوی پارلیمان میں بحث کی جائے گی۔ وائٹ ہاؤس نے کہا ٹرمپ کے حکم نامے کے بعد 109 افراد کو حراست میں لیا، تقریباً 2 درجن تاحال حراست میں ہیں۔ ٹرمپ نے 7 مسلم ملکوں کے شہریوں کو امریکہ داخلے پر پابندی کی حمایت میں ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا اب ہمارے ملک کو مضبوط سرحدوں کی ضرورت ہے۔ دیکھئے پورے یورپ اور دنیا بھر میں کیا ہو رہا ہے، یہ سب خوفناک ہے۔ دریں اثنا ٹرمپ کے حکم نامے کیخلاف دوسرے روز احتجاج کا سلسلہ تیز ہو گیا۔ نیویارک کے بیٹری پارک اور وائٹ ہائوس کے باہر مجسمہ آزادی کے اطراف مظاہرہ کیا گیا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے کہا کہ 7 مسلم ملکوں پر ویزا کی پابندی کو تمام مسلمانوں پر پابندی قرار دینا مناسب نہیں، پاکستان، افغانستان، ترکی سمیت متعدد مسلم ملک پابندی سے متاثر نہیں۔ دریں اثنا وائٹ ہائوس کے چیف آف سٹاف ریفس پریبس نے کہا عارضی پابندی کا اطلاق گرین کارڈ ہولڈرز پر نہیں ہوتا تاہم 7 ملکوں سے آنے والے یا وہاں جانے والوں کی سکریننگ مزید بڑھائی جائے گی۔ پریبس نے کہا ہم ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی کے فیصلے کو ختم نہیں کرینگے اور گرین کارڈ ہولڈرز پر پابندی کا اطلاق نہیں ہو گا۔ عراقی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کیٹی کے نائب سربراہ حشر الشابی نے بھی امریکیوں سے عراق سے نکل جانے کا مطالبہ کیا۔ دوسری طرف عالمی رہنمائوں نے ٹرمپ کی جانب سے 7 ملکوں کے شہریوں کی آمد پر پابندی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ یورپی یونین کے رہنما موگرینی نے کہا یورپی یونین تارکین وطن کی حمایت جاری رکھے گی۔ فرانسیسی وزیراعظم جین مارک ایرالٹ نے کہا پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہنا ہماری ڈیوٹی کا حصہ ہے۔ سویڈن کی نائب وزیراعظم والسٹرام نے کہا یہ بڑا افسوسناک ہے۔ سوئٹزرلینڈ کے وزیر خارجہ نے کہا ٹرمپ کا فیصلہ غلط ہے۔ ہالینڈ کے وزیراعظم مارک روٹے نے کہا جنگوں سے بھاگ کر آنے والوں کا استحقاق ہے انہیں محفوظ ٹھکانہ دیا جائے۔ جمہوریہ چیک کے صدر نے ٹرمپ کے حکم کی حمایت کی اور کہا ٹرمپ اپنے ملک کی حفاظت کر رہے ہیں۔ عراق نے اپنے شہریوں کے امریکہ داخلے پر پابندی پر کڑی تنقید کی۔ عراقی پارلیمنٹ کی امور خارجہ کی کمیٹی کے نائب سربراہ حسن شوویرد نے کہا داعش کیخلاف لڑائی میں کردار کی وجہ سے عراق کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ عراق کیلئے ممکن نہیں کہ دنیا کی طرف سے داعش کیخلاف لڑائی کرے۔ وائٹ ہائوس کے چیف آف سٹاف پریبس نے کہا آخرکار ایگزیکٹو آرڈر کو دیگر ملکوں تک بھی توسیع دینے کی ضرورت ہے۔