ضمیر کی آواز

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 05, 2022 | 07:01 صبح

کیا سقراط جب زیر کا پیالہ پی رہا تھا تو اسے معلوم تھا کہ وہ ہزاروں سال تک زندہ رہے گا سچاٸی کی علامت بن کر ۔۔۔ اسے ہر گز معلوم نہیں تھا مگر وہ سچ کے ساتھ کھڑا تھا اپنے ضمیر کی آواز پر ۔۔ آج انسانی تاریخ ایک تنگ و تاریک کمرے میں ہزاروں سال پہلے زہر کا پیالہ پی کر مرنے والے بوڑھے شخص پر فخر سے سر اٹھا کر کھڑی ہے کہ اس کے پاس ایسی ہستیاں بھی ہیں ۔۔ آپ اپنے حصے کا کام کریں باقی تاریخ پر چھوڑ دیں ۔۔ میر جعفر اور میر صادق کو اس وقت کے لوگ ہوشیار اور عقلمند سمجھ کر واہ واہ کے ڈونگرے برساتے ہوں گے م
گر کیا آج ان کی نسل یہ دعوی کر سکتی ہے کہ وہ میر جعفر یا میر صادق کی نسل سے ہے ۔ لہذا بھول جاٸیں کہ ہماری آواز کہاں تک جاتی ہے اور سنی جاتی ہے یا نہیں اپنے ضمیر کے مطابق آواز ضرور اٹھاٸیں بالکل امام حسین علیہ السلام تو خیر تاریخ سے کہیں بلند ہستی ہیں ۔۔ مگر انھوں نے یہ درس دیا کہ تعداد اور طاقت نہیں سچ اور حق کے ساتھ کھڑے رہے نتاٸج کی پرواہ کیے بغیر ۔۔ ورنہ کیا وہ چاہتے تو یزید کی فوج کو پلک چھپکنے میں راکھ کا ڈھیر نہیں بنا سکتے تھے مگر وہ ریتی دنیا تک سچ کے لیے جان مال قربان کرنے کا درس دے گٸے