ٹی ٹی پی اب کیوں بندوق بردوش؟

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 07, 2022 | 08:11 صبح

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مفتی نورولی محسود نے بھارتی اخبار سنڈے گارڈین کو انٹرویو دیا۔وجدِ ذوق میں کیا کیا نہ کہہ گئے۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس دور میں جڑ پکڑی جب جنرل پرویز مشرف نے افغانستان پریلغار کے لیے پاک سر زمین امریکہ کے حوالے کر دی تھی۔ آج کے ٹی ٹی پی والے افغان طالبان کے ساتھی تھے۔ امریکہ کی آتش و آہن کی برکھا نے طالبان کو اقتدار کے ایوانوں سے نکال کرپہاڑوں کی چٹانوں میں مستقر کردیا تو پاکستان میں ان کے حق میں آواز اٹھنے لگی۔ کچھ طالبان پاکستان چلے آئے۔ پاکستان میں ان ک
ی دستگیری ان لوگوں نے کی جن کو قائداعظم نے پاکستان کا بازوئے شمشیرزن قرار دیا تھا اور یہ لوگ پاکستان کی مغربی سرحدوں کے نگہبان رہے ہیں۔ ان کو اسلامی اخوت کے ناتے مشرف کے اقدام پر شدید اعتراض تھا۔ انہوں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھالئے تو ان کی حمایت میں کئی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ افغانستان میں اقتدار سے نکالے ہوئے طالبان امریکہ اور ان کے اتحادیوں سے برسرپیکار تھے تو پاکستان میں ان کے حامی پاک فوج کو للکارنے لگے۔ ان کاجلد ہی شمالی علاقہ جات کے وسیع علاقے پر غلبہ ہو گیا۔ اسلحہ کے انبار لگ گئے۔ کچھ علاقوں میں شریعت کا نفاذ ہونے لگا اور مخالف مسالک کے لوگ ان کی طاقت کا نشانہ بننے لگے۔ مشرف پر حملے ہوئے اسی دور میں ان کے خلاف کافی حد تک طاقت کا استعمال ہوا جو ان کے بعد پیپلز پارٹی کے دور میں بھی جاری رہا۔ نواز شریف 2013ء میں اقتدار میں آئے تو ان کی طالبان کے حوالے سے پالیسی قدرے نرم تھی۔ شہباز شریف 2008ء سے پنجاب میں وزیر اعلیٰ تھے ان کی طرف سے بھی طالبان کے ساتھ معاملات بگاڑنے سے گریز کیا جاتا رہا۔ نواز شریف ملک کے اندرانتشار ختم کر کے پاکستان کو پر امن اور خوشحال بنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ وہ بھارت کے ساتھ دشمنی بھی اسی مقصد کے لیے کم کرنے کے خواہاں تھے۔ نواز شریف نے طالبان کی طرف صلح کاہاتھ بڑھایا مگر امن معاہدے کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور پھر اپریشن ضربِ عضب سے طالبان کی قوت لرزی اور وہ بکھرتے چلے گئے۔ دفاعی تنصیبات، جی ایچ کیو، فوج کی گاڑیوں، ان کی یونٹوں اور ایئر بیسز حملے ہوئے۔ مہران نیول بیس پردواورین جاسوس طیارے تباہ کئے گئے۔ ان کا کوئی متبادل نہیں۔ ٹی ٹی پی جس کو بھی دشمن سمجھے، پاکستان کے دفاع کو زک سے کس کے مقاصد پورے کئے گئے؟۔ پھر جس طرح ان کے خلاف اپریشن ہوا اور نواز حکومت نے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا اس نے ان کی کمر توڑ دی۔ یہ سب گزرا کل ہے۔ آج افغانستان میں طالبان پھر اقتدار میں آگئے ہیں۔ وہ وجہ ہی ختم ہو گئی جو ٹی ٹی پی کی تخلیق کا باعث تھی۔ حکومت نے ان کو قومی دھارے میں لانے کی پیشکش اور کوشش کی، مگر۔۔۔ اب پاکستانی طالبان کیا چاہتے ہیں؟ اس کا اظہار نورولی محسود کے انڈین میڈیا کو دیئے گئے انٹرویو سے ہوتا ہے۔ یہ وہی انٹرویو ہے جس میں اے پی ایس حملے کا الزام پاک فوج پر لگایا گیا ہے جبکہ حملے کے ساتھ ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کر لی تھی۔انٹرویو کی تفصیل میں جانے سے قبل مختصراً نورولی کے بارے میں جان لیتے ہیں۔ 45سالہ نور ولی کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے۔ مذہبی تعلیم فیصل آباد کراچی گوجرانوالہ سے حاصل کی۔ دو سال جنوبی وزیرستان کے مدرسے میں پڑھاتے رہے۔ ٹی ٹی پی کی بنائی گئی عدالت کے جج رہے۔2018ء میں ملا فضل اللہ کی ہلاکت کے بعد کے امیر بنائے گئے۔ انقلاب محسود کے نام سے کتاب لکھی۔ اسی کتاب میں بینظیر بھٹو پر حملے کی ذمہ داری قبول کی اورمنصوبہ بندی کی تفصیل دی گئی ہے۔ انقلاب محسود میں یہ بھی لکھا ”حقیقی جہاد افغانستان میں امریکی فورسز کے خلاف ہے، پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اسی جہاد کے لئے بطور بیس کیمپ استعمال کیا جا رہا ہے۔ نورولی محسود پر ڈرون حملہ بھی ہواجس میں ان کے8ساتھی مارے گئے تھے۔ بی بی سی کے مطابق 690صفحات کی کتاب میں نورولی نے یہ اعتراف بھی کیا: ”طالبان گروہ اور تنظیمیں ماضی میں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے تحریک ہی کی چھتری تلے ڈاکہ زنی، بھتہ خوری، اجرتی قتال جیسی کارروائیوں میں بھی ملوث رہیں۔ ذرائع آمدن کے بارے میں مزید بتایا گیا کہ 2007ء میں ایک قافلے کے اغوا کے بعد حکومت کے ساتھ معاہدے کے تحت لوگوں اور گاڑیوں کو6کروڑ کے بدلے واپس کیا گیا“۔ ہمارے علاقے ننکانہ صاحب کے ایم پی اے جمیل حسن خان (عرف گڈ خان) کو بھی اغواء کیا گیاتھا۔ ان کی رہائی بھی شہباز شریف کے دور میں مبینہ طور پر5کروڑ روپے ادائیگی کے بعد ہوئی تھی۔ کہتے ہیں کہ رقم وزیر داخلہ پنجاب شجاع خانزادہ نے طالبان تک پہنچائی۔ نور ولی سے انٹرویو سنڈے گارڈین کے ابھی نندن مشرا نے کیا۔ اس کے سوالات میں تعصب کی آمیزش کا ہونا تعجب خیز نہیں لیکن جواب دینے والی شخصیت پاکستان مخالف جذبات کا اظہار بڑے فخر سے کر رہی تھی۔ پہلا سوال تھا کہ پاکستان کے ساتھ سیز فائر کیا افغان طالبان کے دباؤ پر کیا گیا تو جواب نفی میں تھا۔ سیز فائر ختم کرنے کے سوال پر نورولی کا کہنا تھا کہ سیز فائر سے قبل جو یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں جن میں کچھ لیڈروں کی رہائی بھی شامل تھی ان پر عمل نہیں کیا گیا۔ مشرا نے یہ حیرت انگیز سوال کیا کہ پاکستان میڈیا کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ ٹی ٹی پی کے لشکر طیبہ اورجیش محمد کے ساتھ تعلقات استوار ہو رہے ہیں۔ آپ حافظ سعید کی لشکر طیبہ اور مسعود اظہر کی جیش محمدکے ساتھ تعلقات کی کیسے وضاحت کریں گے۔ اس کے جواب میں نورولی نے کہا کہ ہمارے ان تنظیموں کے ساتھ رسمی تعلقات نہیں ہیں۔ ہاں! اگر یہ تنظیمیں ہماری تنظیم میں شامل ہونا چاہتی ہیں تو انہیں ہماری تنظیم کے ضوابط کی پابندی کرنا ہوگی پھر ان کے لیے ہماری تنظیم کے دروازے کھلے ہیں۔ میں قطعی طور پر واضح کردوں کہ ہماری جنگ کامحاذ صرف اور صرف پاکستان ہے۔ کسی دوسرے ملک کے ساتھ جنگ نہیں ہے۔ کسی نے ہماری تنظیم میں شامل ہونا ہے تو اسے یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی۔ نور ولی سے پوچھا گیا کہ پاکستان کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ بھارت آپ لوگوں کی مدد کر رہا ہے۔اس کے جواب میں کہنا تھا کہ ہم پاکستان کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ ہمیں کسی کی مدد درکار نہیں ہے۔ اس انٹرویو سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے کیا مقاصد ہیں۔وہ اب کیوں بندوق بر دوش ہے؟