ہالینڈ نے ترک خاتون وزیر کو بھی بیدخل کر دیا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 13, 2017 | 07:23 صبح

انقرہ/ایمسٹرڈیم/استنبول (مانیٹرنگ) ہالینڈ نے ترک وزیر خارجہ اوگلو کے بعد ترکی کی خاتون وزیر برائے عائلی امور فاطمہ بتول کو بھی روٹرڈیم میں داخلے سے روک دیا۔ اسے حراست میں لے کر ملک سے بے دخل کر دیا گیا جبکہ اس واقعہ کیخلاف روٹر ڈیم میں ترک قونصل خانہ کے باہر سینکڑوں ترکی کے شہریوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور اس دوران مظاہرین کی پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئیں اور لاٹھی چارج کیا گیا۔ جس سے متعدد افراد زخمی ہو گئے۔ کشیدگی مزید بڑھ گئی۔ انقرہ میں بھی ہزاروں ترک شہریوں نے ہالینڈ کے سفارتخانہ کے باہر بھی

زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ہالینڈ کی حکومت نے ترک وزیرفاطمہ بتول صیان قایا کو ’ناپسندیدہ غیر ملکی شخصیت‘ قرار دے کر ہالینڈ سے واپس جرمنی بھیج دیا۔ فاطمہ بتول نے ’ٹوئٹر‘ پر پوسٹ اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسے روٹرڈیم شہر میں قائم ترک قونصل خانے سے صرف 30 میٹر دور روک لیا گیا۔ انہوں نے قونصل خانہ میں ترک شہریوں کی تقریب میں شرکت کرنا تھی۔ علاوہ ازیں سکیورٹی وجوہ پر ترکی میں ہالینڈ کے قائم مقام سفیر اور قونصل جنرل کا دفتربھی سیل کردیا گیا۔ ڈینش وزیراعظم لارس نے کہا ترکی وزیراعظم کا دورہ ڈنمارک منسوخ کر دینا چاہئے۔ مظاہرین نے استنبول میں ڈچ قونصلیٹ پر ترک پرچم لہرا دیا۔ ترک وزیر خارجہ نے کہا جب تک معافی نہیںمانگتا ہالینڈ کے خلاف اقدامات جاری رہیں گے۔ رجب طیب اردگان نے ہالینڈ کو خبردار کیا ہے کہ صدارتی ریفرنڈم کی مہم کے لئے دو ترک وزراءکو تقریر کرنے سے روکنے کا جواب ضرور دیا جائے گا۔ انھوں نے کہا وہ کوئی بھی فیصلہ بدھ کے روز ہونے والے ہالینڈ کے انتخابات کے نتائج آنے کے بعد کریں گے۔ ترک صدر کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ چند روز مغرب نے بہت واضح ہو کے اپنا حقیقی چہرہ دکھایا ہے۔ میرا خیال تھا کہ نازی ازم ختم درحقیقت مغرب میں یہ اب بھی زندہ ہے۔ میری بہن کو، ہماری خاتون وزیر کو، اپنے ہی ملک کے قونصل خانے کی عمارت میں سفارتی گاڑی میں داخل ہونے سے کوئی ملک کیسے روک سکتا ہے۔ وضاحت کریں یہ کیا ہے؟‘ ڈچ حکومت کو قیمت چکانا پڑے گی، ہم انھیں بین الاقوامی سفارتکاری کا سبق سکھائیں گے۔ڈچ حکومت بدھ کو ہونے والے انتخابات سے قبل ترکی اور ہالینڈ کے تعلقات کو قربان کرنا چاہتی ہے تو اسے اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔انقرہ فرانسیسی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ترکی کو اشتعال انگیز بیانات سے باز رہنا چاہئے۔