اردوان کی دہشتگردی جاری، استنبول یونیورسٹی کے تہتر اساتذہ دہشتگردقرار دے کر گرفتار

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 18, 2016 | 16:20 شام

استنبول(مانیٹرنگ)ترک پولیس نے استنبول یونیورسٹی کے ستّر سے زائد اساتذہ کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ ان ماہرین تعلیم کی گرفتاری اس سال جولائی میں فوجی بغاوت کی ناکام کوشش اور جلاوطن ترک مبلغ فتح اللہ گولن کے ساتھ تعلق کی وجہ سے عمل میں آئی۔

 

استنبول سے جمعہ اٹھارہ نومبر کو ملنے والی رپورٹوں میں ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی انادولو کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ تمام کے تمام گرفتار شدگان فتح اللہ گولن کے نظریاتی پیروکار ہیں اور انہیں جمعے کو صبح سویرے مار

ے گئے چھاپوں کے دوران گرفتار کیا گیا۔

انقرہ میں صدر رجب طیب ایردوآن کی قیادت میں ملک کی سیاسی انتظامیہ اقتدار پر قبضے کے لیے جولائی میں کی گئی لیکن خونریزی کے باوجود ناکام رہنے والی فوجی بغاوت کا اصل محرک فتح اللہ گولن ہی کو قرار دیتی ہے، جو اپنے خلاف ترک حکومت کے عائد کردہ ایسے تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

گولن کئی برسوں سے امریکا میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور انقرہ حکومت نے واشنگٹن انتظامیہ سے گولن کو ملک بدر کر کے ان کو ترک حکومت کے حوالے کرنے کی درخواست بھی کر رکھی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے استنبول سے اپنی ایک مفصل رپورٹ میں لکھا ہے کہ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے مجموعی طور پر اب تک ایک لاکھ دس ہزار کے قریب سرکاری ملازمین، فوجیوں اور عدلیہ کے اہلکاروں کو ان کی ملازمتوں سے برطرف یا معطل کیا جا چکا ہے جب کہ مبینہ طور پر ’بغاوت میں ملوث‘ رہنے والے مزید 36 ہزار کے قریب افراد جیلوں میں بند ہیں اور اپنے خلاف عدالتی کارروائی کے انتظار میں ہیں۔

ترک مسلح افواج کے ایک چھوٹے سے حصے کی طرف سے اقتدار پر قبضے کی یہ کوشش ناکام رہنے کے باوجود 240 سے زائد انسانی ہلاکتوں کی وجہ بنی تھی۔

نیوز ایجنسی انادولو کے مطابق استنبول میں اسٹیٹ پراسیکیوٹرز کی طرف سے ترکی کے اس سب سے بڑے شہر کی یونیورسٹی کے 103 اساتذہ کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔ آج جمعے کو علی الصبح مارے گئے چھاپوں کے دوران ان میں سے 73 اساتذہ کو گرفتار کر لیا گیا۔

Türkei Istanbul Demonstration von Kurden von Polizei aufgelöst (picture-alliance/dpa/T. Bozoglu)

ترک حکومت ’شرپسند‘ عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے

یہ تمام اساتذہ استنبول کی یلدیز ٹیکنیکل یونیورسٹی سے وابستہ ماہرین تعلیم ہیں اور حکام نے ان پر ایک ’مسلح دہشت گرد گروپ کی رکنیت‘ کا الزام عائد کیا ہے۔

ترک ریاستی اور معاشرتی ڈھانچے کو فتح اللہ گولن کی تحریک سے وابستہ افراد سے ’پاک‘ کرنے کی حکومتی مہم ہی کے دوران کل جمعرات سترہ نومبر کو ملکی محکمہ انصاف کے اعلیٰ حکام نے 203 ججوں اور وکلائے استغاثہ کو بھی ’گولن نواز دہشت گرد گروپ‘ کے ارکان قرار دے کر ان کی ملازمتوں سے برطرف کر دیا تھا۔

انقرہ حکومت کے ان جملہ اقدامات پر ترکی کے کئی مغربی اتحادی ملکوں اور انسانی حقوق کی بہت سی تنظیموں کو سخت تشویش ہے، جن کا یا تو یہ کہنا ہے یا انہیں خدشہ ہے کہ ان گرفتاریوں، برطرفیوں اور معطلیوں کے ساتھ ایردوآن انتظامیہ سیاسی مخالفین سے نمٹنے اور انہیں خاموش کرا دینے کے لیے استعمال کر رہی ہے یا کر سکتی ہے۔