ترتالیس ہزار مرتبہ ریپ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 07, 2016 | 14:56 شام

نیویارک (شفق ڈیسک) انسانی تاریخ ہولناک جرائم کے ذکر سے بھری پڑی ہے لیکن جو بربریت میکسیکو سے تعلق رکھنے والی ایک نوعمر لڑکی کیساتھ کی گئی اسکی مثال شاید ہی مل سکے۔ کارلا جسنتو صرف 12 سال کی تھیں جب انہیں اغوا کر لیا گیا اور درندہ صفت مجرموں نے انکی عصمت دری کے بعد انہیں جسم فروشی کے دھند ے میں جھونک دیا۔ اگلے 4 سالوں کے دوران انہیں قید میں رکھا گیا اور روزانہ تقریباً 30 افراد انہیں ہوس کا نشانہ بناتے رہے۔ کارلا کا کہنا ہے کہ ان سے جسم فروشی کروانے والا گروہ تمام گاہکوں اور ان سے حاصل ہونیوالی

آمدنی کا حساب رکھتا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ انکی عصمت دری کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ انہیں چار سال کے دوران 43 ہزار 200 مرتبہ زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ کارلا کی دردناک داستان گزشتہ سال پہلی مرتبہ منظر عام پر آئی جب امریکی ٹی وی سی این این نے انکا انٹرویو کیا۔ کارلا نے بتایا کہ جنسی غلامی میں گزارے چار سال ان کی زندگی کا خوفناک ترین دور تھے۔ ان کا کہنا تھا صبح 10 بجے سے میری آبرو ریزی کا آغاز ہوجاتا اور یہ سلسلہ آدہی رات تک جاری رہتا۔ میری عزت سے کھیلنے والے اکثر مرد مجھے روتا ہوا دیکھ کر ہنسا کرتے تھے۔ میں آنکھیں بند کرلیا کرتی تھی تاکہ اپنے ساتھ ہونیوالی درندگی کو دیکھ نہ سکوں۔ مجھے لگتا تھا کہ میں اس عذاب سے کبھی نہیں نکل پاؤں گی کیونکہ میری آبرو ریزی کرنیوالوں میں پولیس والے، جج اور حتیٰ کہ پادری بھی شامل تھے۔ میں سوچتی تھی کہ نکل کر جاؤں گی بھی تو کس کے پاس۔ کارلا کی خوش قسمتی تھی کہ میکسیکو میں کئے جانیوالے ایک بڑے اینٹی ٹریفکنگ آپریشن کے دوران انہیں جنسی غلام بنانیوالا گروہ بھی پکڑا گیا اور بالآخر چار سال تک ظلم سہنے کے بعد انہیں آزادی مل گئی۔ اس وقت ان کی عمر 16 سال تھی۔ اخبار دی انڈیپینڈنٹ کی رپورٹ کیمطابق ناقابل تصور بربریت کا سامنا کرنیوالی اسی لڑکی نے ظالموں سے نجات پانے کے بعد ایسا فیصلہ کیا ہے کہ دنیا کیلئے عزم و ہمت کی مثال بن گئی۔ اس نے اپنے ساتھ ہونیوالے ظلم پر خاموش رہنے کی بجائے ظالموں کیخلاف آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا اور یوں بدترین دردنگی کا نشانہ بننے والی یہ لڑکی دوسروں کیلئے سہارا بن گئی ہے۔ کارلا نے اپنے بھیانک تجربے سے مایوس ہونیکی بجائے دوسروں کو حوصلہ دینے کی مہم شروع کر دی ہے۔ وہ انسانی سمگلنگ اور جبری جسم فروشی کے شکار افراد کی مدد کیلئے سرگرم ہیں۔ وہ انہیں اپنی مثال سے بتا رہی ہیں کہ ظلم کے بادل بالآخر چھٹ جاتے ہیں اور امید کا دامن تھامے رکھنے والے سرخرو ہوتے ہیں۔