حیران کن فلائٹ 5 گھنٹے میں نیویارک سے اسلام آباد

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 20, 2016 | 19:00 شام

ڈینور، کولوراڈو (شفق ڈیسک) امریکہ کی نجی کمپنی بوم ٹیکنالوجی نے آواز سے دگنی رفتار پر سفر کرنیوالے مسافر بردار طیارے کا پروٹوٹائپ بنا لیا ہے جسکی پرواز آئندہ سال یعنی 2017ء کے اختتام تک متوقع ہے۔ یہ کمرشل سپرسونک طیارہ آواز کے مقابلے میں 2.2 گنا زیادہ (ماک 2.2) یعنی 2334 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکے گا۔ اس وقت مسافر بردار طیارے میں نیویارک سے اسلام آباد تک پہنچنے میں کم از کم 20 گھنٹے لگتے ہیں لیکن مستقبل کے اس مسافر بردار طیارے میں یہی فاصلہ صرف 4 گھنٹے 45 منٹ میں طے کرلیا جائیگا

۔ اس طیارے کے پروٹوٹائپ میں جسے ایکس بی ون (XB۔1) کا نام دیا گیا ہے۔ صرف 2 افراد کی گنجائش ہے لیکن بوم ٹیکنالوجی کا کہنا ہے کہ اس کا تجارتی ورژن (جو 2023 میں متوقع ہے) جسامت میں اس سے 3 گنا بڑا ہوگا جبکہ اس میں 45 سے 55 مسافر سفر کرسکیں گے۔ دنیا کے پہلے مسافر بردار سپرسونک طیارے کنکارڈ (Concord) کو ریٹائر ہوئے آج 10 سال سے زیادہ ہو چکے ہیں اور اس عرصے کے دوران ایسے کئی تجارتی طیاروں کے منصوبے سامنے آچکے ہیں جو نہ صرف کنکارڈ سے زیادہ بڑے ہونگے بلکہ انکی رفتار اور مسافروں کی گنجائش بھی کنکارڈ سے کہیں زیادہ ہو گی لیکن اب تک یہ تمام منصوبے تجرباتی یا آزمائشی مراحل ہی پر ہیں۔ ایکس بی ون کا معاملہ بھی ان سے کچھ مختلف نہیں۔ اب تک یہ ہوائی سرنگ (وِنڈ ٹنل) میں 1000 گھنٹے سے زیادہ کی آزمائشں پوری کر چکا ہے جسکے دوران اس میں فلائٹ کنٹرول اور ایویانکس ہی کو حتمی شکل دی جاسکی ہے جبکہ اسکا ائرفریم (ڈھانچہ) ابھی تک تیاری کے مراحل میں ہے۔ اسے ماک 2.2 کی زبردست رفتار پر پہنچانے کیلئے اس میں جنرل الیکٹرک کمپنی کے تیار کردہ 3 عدد جدید ترین ٹربوفین جیٹ انجن نصب کئے جائینگے۔ یہ جیٹ انجن آج کل کے نئے تربیتی لڑاکا طیاروں میں نصب کئے جارہے ہیں جنہیں کمرشل طیارے میں نصب کرنے کیلئے ضروری تبدیلیوں سے گزارا جائیگا۔ ایکس بی ون پروٹوٹائپ دیکھنے میں کسی لڑاکا طیارے ہی کی طرح نظر آتا ہے لیکن اسکا حتمی ڈیزائن (جو فی الحال صرف ڈرائنگ بورڈ پر ہے) خاصا بڑا اور مسافر بردار طیارے جیسا ہی دکھائی دیتا ہے۔ امریکی میڈیا اسے مکمل نجی منصوبہ ضرور قرار دے رہا ہے لیکن اس میں ناسا، پریٹ اینڈ وٹنی، لاک ہیڈ مارٹن، بوئنگ، نارتھروپ گرومین، اسپیس ایکس اور اسکیلڈ کمپوزٹس جیسے اداروں کے ماہرین بھی شریک ہیں جو کسی نہ کسی صورت امریکا میں ہوابازی کے سرکاری شعبے سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ اسکی تیز رفتاری اور دوسری خوبیاں اپنی جگہ، لیکن یہ کہنا ابھی مشکل ہے کہ یہ بروقت مکمل ہو سکے گا یا نہیں اور یہ کہ اسے ویسی ہی کامیانی حاصل بھی ہوگی کہ جسکی اس سے توقع کی جارہی ہے۔