پاکستان میں ویلنٹائن ڈے پر پابندی کیوں لگائی گئی؟ بالآخر وجہ سامنے آ ہی گئی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 14, 2017 | 08:07 صبح

لاہور (ویب ڈیسک) اسلام آباد کے ایک شہری عبدالوحیدکی طرف سے دائر کردہ درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے عدالت نے پیمرا کو یہ حکم دیا کہ وہ ذرائع ابلاغ کو نوٹیفیکیشن بھیجےجس میں انہیں ایسے اشتہارات چلانے سے روکا جائے، جو ویلنٹائن کو فروغ دے رہے ہیں۔

اس فیصلے سے پاکستان کے لبرل حلقوں میں غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ معروف سماجی رہنما فرزانہ باری نے اس پر ان الفاظ میں اپنا رد عمل پیش کیا ،یہ انسان کا بنیادی حق ہے کہ وہ یہ فیصلہ خود کرے کہ اسے اپنی نجی زندگی میں

خوشی کس طرح منانی ہے۔ عدالت کا کوئی کام نہیں کہ وہ افراد کی نجی زندگیوں میں دخل دے۔ عدالت میں لاکھوں مقدمے زیرِ التواء ہیں۔ خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا جارہا ہے۔غیر مسلم شہریوں کے حقوق چھینے جارہے ہیں۔ لوگوں کو مذہب و فرقے کے نام پر قتل کیا جارہا ہے۔ ان تمام چیزوں کے تدارک کے لیے تو کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائے نہیں جارہے لیکن ویلنٹائن  ڈے جیسی بے ضرر چیز پر طوفان کھڑا کردیا گیا ہے۔ عالمگیریت کے دور میں صرف ٹیکنالوجی کی ہی منتقلی نہیں ہوتی بلکہ خیالات اورنظریات بھی عالمگیر شکل اختیار کرتے ہیں۔ اس طرح کے فیصلے اس ملک میں رجعت پسند قوتوں کو مزید مضبوط کریں گے اور دوسرے مکتبہء فکر کے افراد کے لیے جگہ مزید محدود ہو جائے گی۔

 یہ عجیب بات ہے کہ اس سماج میں افراد کو ایک دوسرے کو پھول پیش کرنے پر پابندی لگائی جارہی ہے لیکن جو لوگوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کر رہے ہیں انہیں پکڑا نہیں جارہا۔کل رجعت پسند لوگ عید اور دوسری خوشیوں پر بھی پابندی لگانے کے مطالبے کریں گے۔ یہ لوگ تمام خوشیوں کو ختم کر کے پاکستانیوں کو نفسیاتی مریض بنانا چاہتے ہیں۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ملکی ادارے بشمول عدالت و پارلیمنٹ قدامت پرست و رجعت پسند طاقتوں کو خوش کرنے میں مصروف ہیں۔ عدالت کا کوئی کام نہیں کہ وہ لوگوں کی خوشیوں کو چھینے۔ میں لوگوں سے اپیل کروں گا کہ وہ کل نکلیں اور اپنی خوشیاں منائیں۔
پاکستان میں مذہبی طبقات نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما و سابق سینیٹر پروفیسر خورشید احمد نے اس فیصلے پر اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے میڈیا  کو بتایا، ’’ہم اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں ویلنٹائن کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایک سازش کے تحت مغربی ثقافت کو ہم پر مسلط کیا جارہا ہے۔ لبرل جو قانون کی حکمرانی کا رونا روتے ہیں، انہیں اس عدالتی فیصلے کا احترام کرنا چاہیے۔