اپنی بنیاد اور کلچر سے پرے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 04, 2022 | 17:57 شام

؛چند سال پہلے کی بات ہے میں دوبئی میں ہنگری (یورپ) کی ایک کمپنی میں کام کرتا تھا ، وہاں میرے ساتھ ہنگری کا ایک انجنئیر میرا کولیگ تھا ، اُس کے ساتھ میری کافی گپ شپ تھی ایک دن ہم لوگ پیکٹ والی لسی پی رہے تھے ، جسے وہاں مقامی زبان میں لبن بولتے ہیں ، میں نے اسے بتایا کہ یہ لسی ہم گھر میں بناتے ہیں ، وہ بڑا حیران ہوا، بولا کیسے ، میں نے اسے کہا کہ ہم لوگ دہی سے لسی اور مکھن نکالتے ہیں ، وہ اور بھی حیران ہو گیا ، کہنے لگا یہ کیسے ممکن ہے ، میں نے بولا ہم گائے کا دودھ نکال کر اسکا دہی بناتے ہیں ۔ پھر صبح مشین میں ڈال کر مکھن اور لسی الگ الگ کر لیتے ہیں ، یہ ہاتھ سے بھی بنا سکتے ہیں ، وہ اتنا حیران ہوا جیسے میں کسی تیسری دنیا کی بات کر رہا ہوں کہنے لگا یہ باتیں میری دادی سنایا کرتی تھیں ۔ کہنے لگا میری بات لکھ لو تم لوگ بھی کچھ سالوں تک آرگینک یعنی قدرتی چیزوں سے محروم ہونے والے ہو ، میں بولا وہ کیسے ، اس نے بتایا کہ ہنگری میں بھی ایسے ہوا کرتا تھا ، پھر ساری معیشت یہودیوں کے ہاتھ میں آ گئی ، انتظامی معاملات بھی یہودیوں کے ہاتھ میں آ گئے ، انہوں نے کوالٹی اور صحت کے حوالے سے میڈیا پر اشتہاری مہم چلائی اور جتنی بھی آرگینک (قدرتی) چیزیں تھیں ان کو صحت کے حوالے سے نقصان دہ قرار دے دیا.... جیسے کھلا دودھ ، کھلی روٹی ، گوشت ، ہوٹل ، فروٹ ، وغیرہ وغیرہ ۔ پھر کیا ہوا ؟ برانڈ متعارف ہو گئے ، جو انٹرنیشنل لیول کے میعار کے مطابق تھے ۔ گوشت سپلائی کرنے والی کمپنیاں مارکیٹ میں آ گئیں ، ان کا گوشت ڈبوں میں اچھی اور خوبصورت پیکنگ کے ساتھ ملنے لگا. اور جو عام بیچنے والے تھے ان پر اداروں کے چھاپے پڑنے شروع ہو گئے. میڈیا پر انہیں بدنام کیا جانے لگا ، نتیجہ کیا نکلا ، گوشت کا کام کرنے والے چھوٹے کاروباری لوگوں کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا اور جو تھوڑے سرمایہ دار تھے ، گوشت سپلائی کرنے والی کمپنیوں نے ان کو اپنی فرنچائزز دے دیں ، اب وہ کمپنیوں کا گوشت فروخت کرنے لگے. عام قصائی گوشت والا جانور لے کر ذبح کر کے گوشت صاف کر کے بیچتا ، بڑی بےایمانی کرتا تو ، گوشت کو پانی لگا لیتا ، اور کمپنیاں کیا کرتیں ، وہ کسی کو نہیں پتہ، پورا جانور مشین میں ڈالتے ، اس کا قیمہ قیمہ کرتے گوبر اور آنتوں سمیت !! پھر اس میں کیمیکل ڈال کر صاف کرتے ، اس کو طویل عرصہ تک محفوظ کرنے کے لیے مزید کیمیکل ڈالتے ، پھر اسکے مختلف سائز کے پیس بنا کر پیک کر کے مارکیٹ میں ڈال دیتے اور لوگ برانڈ کے نام پر خریدتے ، باہر رہنے والوں کو گوشت کمپنیوں کا اچھی طرح سے اندازہ ہو گا !! اپنی پراڈکٹ کی سیل بڑھانے کیلئے مقامی قصائیوں کو بدنام کرنا ضروری تھا ۔ اس کیلئے گدھے کے گوشت کا ڈرامہ رچایا گیا........ یہ ڈرامہ میڈیا نے کسی کے کہنے پر کھیلا ۔۔۔۔ تاکہ لوگ بڑا گوشت نہ کھائیں اور مرغی کی طرف واپس آئیں ۔۔۔۔ کیا اب ملک میں گدھے ختم ہو گئے ہیں ؟ نہیں !!! بلکہ سیلز ٹارگٹ حاصل ہو رہے ہیں ۔۔۔۔ بھینسوں کو شہروں سے کیوں نکالا گیا؟ تاکہ خالص ، تازہ اور سستے دودھ کی جگہ ڈبہ والا دودھ فروخت کیا جا سکے ۔۔۔۔ جب مطلوبہ ٹاگٹ پورے نہیں ہوئے تو کھلے دودھ کے پیچھے پڑ گئے ۔۔۔۔ اسی طرح مقامی گوالوں کے ساتھ بھی کیا ؛ پہلے تو میڈیا پر مہم چلا کر ان کو مارکیٹ میں بدنام کیا پھر ان کو اپنی فرنچائز دے دیں اور اپنا ہی دودھ بیچنا شروع کر دیا ۔ اب مجھے یہ بتائیں کہ جو دودھ عام اور چھوٹے فارمز سے آتا ہے یعنی مقامی گوالوں کا کھلا دودھ مقامی گوالا اس کیلئے کسی قسم کا کیمیکل نا تو جانور کو کھلاتا ہے اور نہ دودھ میں ڈالتا ہے ، زیادہ سے زیادہ کیا کرے گا ، پانی ڈال لے گا زیادہ ڈالے گا تو وہ بھی لوگوں کو پتہ چل جائے گا ،،، اور جو نیسلے، ملک پیک اور دوسرے ٹیٹرا پیک والے ہیں وہ دودھ کو لمبے عرصہ محفوظ رکھنے کے لیے کیا کیا کیمیکل ڈالتے ہیں اور فارموں میں جانوروں کو ناجانے کیا کچھ کھلاتے ہیں ،، یہودیوں کا دودھ صحیح ہے یا کسان والا مقامی کھلا دودھ ؟؟ دبئی میں دودھ کی ایکسپائری ڈیٹ جتنی زیادہ ہو گی اتنا زیادہ کیمیکل ہوگا اور اتنی قیمت کم ہو گی ۔ ایک ہی کمپنی کا دودھ اگر ٹیٹرا پیک میں خریدیں گے تو تین درہم فی لیٹر قیمت ہے ، اسی کمپنی کی بوتل فریش والی خریدیں گے تو چھ درہم لیٹر اور آج کل آرگینک دودھ بھی مارکیٹ میں آ گیا ہے جو چودہ درہم فی لیٹر ہے ۔ مجھے یہ بتائیں ، کہ کھلا دودھ نکال کر چودہ درہم کا بک رہا ہے تو کیا ضرورت ہے ، پیکنگ کر کے تین درہم کا بیچنے کی ،، ؟؟ لوگ اب آرگینک کے پیچھے بھاگتے ہیں اور ہم بدقسمت برانڈ کے پیچھے پڑ گئے ہیں ، اب پاکستان میں بھی بڑے بڑے ڈیری فارم بن رہے ہیں ، اور ہر دوسرے روز حکومت دودھ والوں پر چھاپے مار رہی ہوتی ہے اور میڈیا پر دکھا رہی ہوتی ہے کہ دودھ میں یہ ملایا، وہ ملایا ،، اسٹرنگ آپریشن کیے جا رہے ہوتے ہیں ،، او بھائی ، اگر کاروائی کرنی ہے تو میڈیا پر شور مچانے کی کیا ضرورت ہے؟ کیوں لوگوں کا اعتبار اٹھانے کیلئے ذہن تبدیل کر رہے ہیں ۔ اب آپ کے ذہن میں یہ سوال لازمی آئے گا کہ دنیا کی ہر تباہی کو یہودیوں سے کیوں جوڑا جاتا ہے؟؟؟ ؟ تو میرے بھائیو آپ نے صرف یہ کرنا ہے کہ دنیا کے سب بڑے برانڈڈ پیک فوڈ کمپنیوں کے مالک کی لسٹ نکال لیں اور بہت آسانی سے ان کے نام کی پروفائل واٹس ایپ ، انسٹاگرام ، فیس بک پر چیک کر لیں یا پھر ان ناموں کو گوگل پر سرچ کر لیں تو ان کی پروفائل پر آپ کو ان کا مذہب یہودی ہی ملے گا. دنیا کے ذیادہ تر کاروبار کے مالک یہی یہودی ہی ہیں کاروبار کے ساتھ ساتھ یہ لوگ انٹرنیشنل میڈیا کو بھی کنٹرول میں کئے ہوئے ہیں اور جب چاہئیں عوام میں پروپیگنڈا پھیلا دیتے ہیں ۔ بہرحال اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ ھم اپنی قدرتی خوراک کو اپنائیں اور شارٹ کٹ سے بنی ہوئی ہر اس خوراک سے خود بھی بچیں اور خاص طور پر اپنی اولاد کو ان سے بچائیں مثلاً پیپسی ، کوک جیسی ڈرنک ، پیک جوسز ، پیک چپس ، مختلف اسنیکس ، برگر ، پیزا کیوں کہ ان میں بھی پیک فروزن چکن اور پیک لوازمات استعمال کئیے جاتے ہیں ۔ یاد رہے کہ یورپ اور امریکہ کے اکثر ممالک جہاں کرونا اموات سب سے زیادہ ہوئی ہیں وہاں کی زیادہ تر آبادی کی خوراک یہی برگر ، پیزا اور پیک فوڈز پر مشتمل ہوتی ہے