سیاحت:جو سورہ رحمن میں وہ پاکستان میں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 18, 2022 | 17:58 شام

مالدیپ ایک ہزار جزائر پر مشتمل ہے۔اس کی معیشت کا دارومدار سیاحت پر ہے۔ مالدیپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سمندر بُرد ہو رہا ہے۔ ایک دہائی سے بھی قبل مالدیپ کے کئی جزیرے سمندر میں سمندر بن جائیں گے۔ مالدیپ کو اس کے حکمرانوں کی طرف سے دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے دلکش بنا دیا گیا ہے۔ اس ملک کے جزائر سطح سمندر کے برابر ہیں جبکہ بحیرہ کیپسن میں واقع وسط ایشیائی ریاست آذربائیجان سطح سمندر سے28میٹر نیچے ہے مگر اس کے ڈوبنے کا کو کوئی خطرہ نہیں۔ مالدیپ کو سیاحوں کی جنت اس کے قدرتی حسن نے بنا دیا ہے۔ مالے
مالدیپ کا دارالحکومت اور اس کا ایئر پورٹ ساحل سمندر پر ہے۔ ہوائی جہاز سے اترتے ہی ٹورسٹ اپنی پسند کے جزیروں کی طرف کشتیوں پر نکل جاتے ہیں۔ مافوشی اہم ترین اور خوبصورت جزائر میں سے ایک ہے۔ کئی دیگر جزائر کی طرح اس جزیرے پر کوئی گاڑی نہیں۔ دنیا بھر کے سیاح ٹورسٹ اس جزیرے پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ مالدیپ میں بھارت اور بنگلہ دیش کے لوگ زیادہ ملازمت کر رہے ہیں۔ ان میں کوئی پاکستانی نظر نہیں آتا۔ پیرا سیلنگ مافوشی سے ذرا دور کی جاتی ہے۔ کشتی کے پیچھے بیلون باندھ دیا جاتا ہے جو آہستہ آہستہ بلند ہوتا ہوا ڈیڑھ سو میٹر اوپر تک جاتا ہے۔ یہ کوئی خطر ناک اور خوفناک ایونٹ نہیں ہے۔ تھری پوائنٹ سنوکلنگ میں سکوبا ڈائیونگ اس موقع پرضرور خوف پیدا کردیتی ہے جب سات آٹھ فٹ کی شارک آپ کے نہ صرف قریب سے بلکہ جسم کو چھو کر گزرتی ہے۔ اس خوف میں اس وقت اضافہ ہو جاتا ہے، جب سمندر کی تہہ میں 40پچاس فٹ کی جہازی سائز کی شارک مچھلی پر نظر پڑتی ہے اور یہ سارا منظر آپ کے سامنے اس وقت ہوتا ہے جب آپ سمندر کے اندرآکسیجن ماسک پہن کر سطح آب سے پندرہ میٹر نیچے موجود ہوتے ہیں۔ حفاظت کا تمام سامان کیا گیا ہوتا ہے۔ سات آٹھ فٹ والی مچھلیاں ڈائیونگ کرنے والوں کو اس لیے نقصان نہیں پہنچاتیں کہ ان کی خوراک مچھلیوں کے ٹکڑوں کی صورت میں پہلے ہی مہیا کر دی جاتی ہے۔ سمندر ہی میں کُنڈی سے مچھلیاں پکڑنے کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ جو مچھلی سیاح پکڑتے ہیں اسی سے ڈنر کرایا جاتا ہے۔ سیاحوں کو مچھلی ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں۔ مالدیپ پانیوں میں بسا ملک ہے۔ اس لیے وہاں کاغذ کی نہیں پلاسٹک کی کرنسی رائج ہے۔ اب تو ادائیگیاں کارڈ کے ذریعے بھی ہونے لگی ہیں۔ مالدیپ کی زیادہ آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ مسجدیں آباد رہتی ہیں۔مقامی خواتین کے لباس کا عبایا لازم حصہ ہے جبکہ خواتین سیاحوں کے شارٹس پہننے پر پابندی نہیں۔ کھلے عام شراب نوشی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔مقامی لوگ کیا سیاح بھی جوتے پہننے سے گریز کرتے ہیں۔ ہر طرف ریت ہی ریت ہے۔ اس لئے جوتوں کی ضرورت نہیں رہتی۔سفید رنگت کی وجہ سے ریت بھی عجب نظارہ پیش کرتی ہے۔ مالدیپ میں سال کے بارہ ماہ موسم معتدل رہتا ہے۔ درجہ حرارت 27سے کم اور34سے زیادہ نہیں ہوتا۔ ہر وقت ہوا چلتی ہے۔ چلنے پھرنے سے پسینہ آئے تو آئے۔ مالدیپ کو سیاحوں کے لیے دلکش بنانے کے لیے حکومت کی طرف سے ہر ممکن سہولت فراہم کی جاتی ہے۔دنیا قدرتی حسن کے بکھرے مناظر مالدیپ یا پاکستان میں سب سے زیادہ دیکھ سکتی ہے۔ پاکستان سے مالدیپ براہِ راست کوئی پرواز نہیں۔ پاکستان سے دبئی اور دبئی سے چار گھنٹے میں مالے۔ بھارت کے اوپر سے گزر کر جائیں توصرف 4گھنٹے ہی لگیں گے۔ مالدیپ میں ہر کہیں انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ دبئی سے مالے جاتے ہوئے بزنس اورآئی ٹی پروفیشنلز دو ہزار کی ادائیگی کر کے انٹر نیٹ کی سہولت حاصل کر سکتے ہیں۔ فری بھی انٹر نیٹ میسر ہے جس سے صرف فیس بک اور وٹس ایپ چل سکتا ہے۔مالے ایئر پورٹ پر اتریں توچیک آؤٹ میں بیس منٹ سے زیادہ وقت نہیں لگتا۔دبئی ایئر پورٹ دنیا کے مصروف ترین ایئر پورٹس میں شامل ہے۔ دبئی میں اترتے ہوئے ویزے پرٹھپہ لگاتے ہیں جس کے لیے چند منٹ لگتے ہیں۔چیک آؤٹ ایک منٹ میں ہوجاتاہے۔ آپ کو پاسپورٹ نکالنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ایک تصویر لی جاتی ہے اور بس، مسافر کلیئر ہو گیا۔دبئی اور ابو ظہبی سیاحوں کے لیے دلکشی کا سامان رکھتے ہیں۔ دنیا جہاں اُمڈی چلی آتی ہے۔ اس ملک میں ٹریفک قوانین کو سخت بنایا گیا ہے۔ اوور سپیڈنگ، غلط ڈرائیونگ،لین کی خلاف ورزی، بیلٹ نہ باندھنے،ہینڈ فری کے بغیرموبائل سننے، لو سپیڈ(بڑی شاہراہوں پر60کلو میٹر سے کم رفتار پر بھی) جرمانہ کیا جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ جرمانے کی مالیت5سو درہم ہے۔ پاکستانی کرنسی میں یہ پچیس ہزار بنتے ہیں۔ دنیا نہایت خوبصورت ہے۔ یورپ کے ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ سکنڈے نیوین ممالک بھی کم نہیں۔کینیڈا اور یو ایس اے کے کئی علاقوں میں قدرتی حسن کہکشاؤں کی مانند، زمین پر قوس قزاح کے رنگ بکھیرتا ہے۔ یونان،مصر اور اردن کے علاقے لازوال حسن سے معمور ہیں۔ دنیا گھومنے والے کئی لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے۔ دنیا کے حسن کے طلسم کدوں کی حسین داستانیں سنی ہیں۔ انٹرنیٹ پربھی انسان خوبصورت نظاروں میں کھو جاتا ہے۔ سیاحت کے حوالے سے جس بھی ٹورسٹ اور ٹریولر سے ملاقات ہوئی ہر کسی نے ایک ہی بات کی۔ پاکستان جیسا خوبصورت ملک اور کوئی نہیں ہے۔شمالی علاقہ جات ہنزہ سکردو،گلیات،کشمیر،گلگت سمیت بہت سے علاقوں میں کسی بھی موسم میں طلوعِ اور غروبِ آفتاب کے دوران اردگرد دیکھیں تو لگتا ہے تمام تر رعنائیوں اور زیبائیوں کے جلو میں کائنات ابھی تخلیق ہورہی ہے۔ میرے دوست افتخار خان کہتے ہیں، جو سورہ رحمٰن میں ہے وہ پاکستان میں ہے۔ مگر اس ملک کے خوبصورت علاقوں کی رونمائی کی طرف وہ توجہ نہیں دی جاتی جو انکی اہمیت کا تقاضہ ہے۔ بلاشبہ پاکستان میں سیاح آتے ہیں مگر جس طرح کے یہاں نظارے اور علاقے ہیں ان کو پیش نظر رکھا جائے تو سیاحوں کی تعداد مایوس کن ہے۔ ایک تو ان علاقوں کو ڈیویلپ نہیں کیا گیا۔ دوسرے سہولیات اور ذرائع آمدورفت عالمی سطح کے نہیں ہیں۔ دبئی ایئر پورٹ پر چیک آؤٹ کے لیے ایک لمحہ لگتا ہے۔ ہمارے انٹرنیشنل ایئر پورٹس پر یہی کام گھنٹے پون گھنٹے سے کم میں نہیں ہوتا۔ پانچ سو مسافر جہاز سے اترتے ہیں تو تین لوگ پاسپورٹ پر مہر لگانے کے لیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ایک ان کے بعد پاسپورٹ پکڑ کے اور مسافر کو گھور کے دیکھتا ہے۔ سیاحت کے لیے آنے والے لوگ اس کوفت سے گزرتے ہیں اور پھر ان کے ساتھ جو سفر کے دوران اور ہوٹلوں میں ہوتا اس کی عکاسی ہمارے عمومی معاشرتی رویوں سے ہو جاتی ہے۔ حکومت خصوصی طور پر مرکزی اور صوبائی سطح پر ٹورزم ڈیپارٹمنٹ کو بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور یہ صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب نیشنلزم کے جذبات مفادات پر غالب ہوں۔ اگلے ہفتے ان شاء اللہ آذر بائیجان روانگی کا پروگرام ہے۔دبئی میں بارہ گھنٹے کے سٹے کے بعد باکو جانا ہے۔آذربائیجان پاکستان کے بہترین دوستوں میں سے ہے۔اسکی دوستی میں پاکستان نے آج تک آرمینیا کو تسلیم نہیں کیا۔آذر بائیجان میں کیا دیکھا،آرمینیا بارے کیا سنا،آئندہ تحریروں میں ملاحظہ کیجئے گا۔ویزے اور تکٹوں کیلئے کہیں نہیں جانا پڑا۔خیر ہو پاکستان کی۔سب کچھ آن لائن ہوا۔