ویرو نے جیل سے آتے ہی وڈیروں کا جینا حرام کردیا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 06, 2017 | 15:28 شام

لندن (بی بی سی) ویرو کولھی نے کئی سال تک خاندان سمیت زمینداروں کے پاس کام کیا اور ایک دن ذہن پر پڑی غلامی کی زنجیر توڑ دی۔ دو کمروں پر مشتمل گھر میں سے اے بی سی ڈی پڑھنے کی آواز گونج رہی ہے جبکہ کوہلی کمیونٹی کے روایتی رنگ برنگے لباس میں تقریباً 60 برس کی عمر کی خاتون کمرے کے باہر پیالے سے چائے کی چسکیاں لے رہی ہیں۔ ان کے چہرے پر اطمینان اور آنکھوں میں گہرائی واضح طور پر عیاں تھی۔ حیدرآباد کے قریب پھلیلی نہر کے کنارے پر واقع یہ اسی ویرو کوہلی کا گھر ہے، جس نے کئی برس جبری مشقت میں گذارنے ک

ے بعد بالاخر اس سے چھٹکارہ حاصل کرلیا۔ انہیں گذشتہ برس دسمبر میں انسانی حقوق کے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا اور اس سے قبل انھیں امریکہ میں غلامی کے خلاف 'فریڈرک ڈگلس فریڈم' ایوارڈ دیا گیا تھا۔ ویرو نے گھر کا ایک کمرہ کسانوں کے بچوں کی تعلیم کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ ویرو کوہلی نے کئی سال تک خاندان سمیت زمینداروں کے پاس کام کیا اور ایک دن ذہن پر پڑی غلامی کی زنجیر توڑ دی۔ ایک روز دوپہر کو انہوں نے کام دار کی نظروں سے بچ کر راہ فرار اختیار کی اور سورج کی تپش میں بغیر چپل کئی میل کا سفر پیدل طے کرکے کنری شہر پہنچیں جہاں جان پہچان والوں کے ذریعے بھائیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئیں۔ 'میرے بھائی اپنے مال مویشی بیچ کر 20 ہزار روپے لے کر زمیندار کے پاس پہنچے تاکہ خاندان کے دوسرے لوگوں کو رہا کرائیں لیکن زمیندار نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ قرضہ چار لاکھ روپے ہے اس کے ساتھ یہ بھی مطالبہ کیا کہ ویرو کہاں ہے اس کو ہمارے حوالے کرو تاکہ اس کو گولی مار دیں۔' ویرو کا بھائی اسے لے کر ماتلی میں جبری مشقت سے رہائی پانے والے کسانوں کے کیمپ میں لیکر آیا جہاں انسانی حقوق کے کمیشن نے انھیں ایس ایس پی عمرکوٹ کے لیے ایک خط لکھا۔ وہ یہ خط لے کر رات کو چھپتے چھپاتی عمرکوٹ پہنچیں لیکن ایس ایس پی چھٹی پر تھا۔ انھوں نے دو دن دفتر کے احاطے میں ہی گذار دیے۔ بالاخر ایس ایس پی سے ملاقات ہوئی اور وہ ان کے ساتھ روانہ ہوا۔ درد و تکلیف بیان کرتے ہوئے ویرو کے چہرے پر کرب آیا اور اس کے بعد آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ تکلیف اب بھی انہیں ستاتی ہے اور انھیں دکھ ہوتا ہے۔ 'ایس ایچ او نے مجھے دو روز تک تشدد کا نشانہ بنایا اور کہا کہ زمیندار کے پاس واپس جاؤ میں نے کہا کہ اگر مجھے یہاں مار بھی ڈالو تو بھی واپس نہیں جاؤں گی۔ بالاخر انھیں مجھے چھوڑنا پڑا۔ ویرو کوہلی محنت مزدوری کرتے ہوئے ساتھ میں دیگر کسانوں کی رہائی کے لیے بھی کوششیں کرتی رہیں۔ اس طرح انھوں نے 400 کسان رہا کروائے۔ کسانوں کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'گرین رورل ڈوہلپمنٹ ارگنائزیشن' نے انہیں فریڈرک ڈگلس فریڈم ایوارڈ کے لیے نامزد کیا۔ کسانوں کے مسائل ویرو کو سیاسی میدان میں لے آئے اور انہوں نے گذشتہ عام انتخابات میں حصہ لیا۔ انہیں چھ ہزار ووٹ ملے۔ ویرو کوہلی کو ایوارڈ سے جو رقم ملی اس میں سے دو کمروں پر مشتمل گھر بنوایا جس کا ایک کمرہ سکول کے حوالے کیا جبکہ نصف رقم جبری مشقت سے رہا ہونے والے کسانوں کے لیے وقف کردی۔ اس وقت حیدرآباد اور عمرکوٹ میں جبری مشقت سے رہائی پانے والے کسانوں کے تین کیمپ موجود ہیں، جن میں تعلیم اور صحت سے لیکر پینے کے پانی کی کوئی سہولت دستیاب نہیں۔ حیدرآباد کے مضافات میں 'آزاد کیمپ واقع ہے جہاں ہر کسان ظلم و جبر کی ایک کہانی ساتھ لیے چلتا ہے۔ ویرو کوہلی ان کیمپوں کے کسانوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں، دو روز قبل بھی ایک کسان اجمل بھیل کی بیوی سامو بھیل نے انہیں بتایا کہ ان کے شوہر پر اغوا کا جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ضمانت کے لیے ان کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ رسولی کے باعث وہ کام نہیں کرسکتیں جبکہ 12 سال کا بیٹا کام پر جاتا ہے جس سے گھر چل رہا ہے۔ کسانوں کے مسائل ویرو کو سیاسی میدان میں لے آئے اور انھوں نے گذشتہ عام انتخابات میں حصہ لیا۔ انھیں چھ ہزار ووٹ ملے۔ ویرو کوہلی کے مطابق انتخابی مہم کے دوران ان پر حملے کروائے گئے لیکن وہ ڈری نہیں۔ پھر 2 کروڑ روپے کی پیشکش کی گئی جو انھوں نے مسترد کردی۔ انتخابات کے بعد ان پر مقدمات کی بھر مار ہوگئی اور انہیں دو بار جیل جانا پڑا۔ بالاخر بدھ کو عدالت نے انھیں باعزت بری کردیا۔ ویرو کا کہنا ہے کہ وہ وڈیروں سے خوفزدہ تھیں اور نہ سیاست دانوں سے ڈرتی ہیں اس لیے دوبارہ بھی انتخابات میں حصہ لیں گی۔