عورت مارچ کا نعرہ"ہمارا جسم ہماری مرضی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 07, 2020 | 19:45 شام

ہر سال8مارچ کو ملک بھر میں عورتوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن عورتوں کے حوالے سے ایک خاص اہمیت کا حامل ہے لیکن پچھلے چند سالوں سے اس دن جو کچھ دیکھنے اور سننے میں آیا وہ ایک مسلم معاشرے میں عقل کو حیران کرنے کے لیے کافی ہے۔بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عورت کو بے پردہ کر کے چوک میں کھڑا کر دیا گیا۔اور مجھے یقین ہے ایسا کرنے والےوں کا تعلق مسلمانوں کے کسی بھی خاندان سے نہیں ہے۔ لبرلزم کے نام پر شرو

ع ہونے والا یہ جملہ ” میرا جسم میری مرضی“ نہ صرف مردوں کے لیے ایک نعرہ بن گیا بلکہ خواتین نے بھی اس جملے کے استعمال سے گریز نہ کیا۔ اوردیکھتے ہی دیکھتے یہ سوچ یا جملہ شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگا۔ معاشرہ دو حصوں میں بٹ گیا۔ کوئی اس کی حمایت کرتا نظر آیا۔ تو کسی نے اسکی مخالفت میں زمین آسمان ایک کر دیئے۔اس جملے کے تخلیق کار نے اسکی حمایت میں ایسے ایسے دلائل پیش کئے کہ دیکھنے اور سننے والے سوچ میں پڑ گئے کہ کیا واقعی عورت کو اپنے وجود پر مکمل آزادی حاصل نہیں ہے؟۔ کیا عورت واقعی مجبور اور بے بس ہے؟۔
 پاکستانی معاشرے میں عورتوں کے عالمی دن کے موقع پرمنعقد ہونے والی عورت مارچ میںخواتین و حضرات نے ایسے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے کہ جس نے پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک کو ہلا کر رکھ دیا۔ 
دیکھا جائے تو8 مارچ2019ءکو سکھر کی سڑکوں پر لبرل آنٹیاں میرا جسم میری مرضی کے پوسڑ لے کرایسے کونسے مطالبات منوانا چاہتی تھی جو اسلام انہیں نہیں دیتا ؟ کیا یہ پاکستان جیسے مسلمان معاشرے میں کپڑے اتارکے گھومنا چاہتی ہیں یا مردوں کے برابر حقوق چاہتی ہیں؟ لبرل عورت مجھے بتائے کہ وہ کونسے حقوق ہیں جو اسلام نے آپ کو نہ دیکر زیادتی کی ہو ؟۔کوئی ایک ایسا جواز پیش کیا جائے تاکہ قانون کے ساتھ ساتھ باقی افراد بھی عورت پر ہونے والے ظلم و ستم سے واقف ہو سکیں۔لیکن نہیں ان کے پاس جواز نہیں ہے ان کے پاس بس نعرہ ہے۔ جس کا استعمال کرنے کے لیے یہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔
 عورت مارچ میں ہونے والی بے شرمی اور بے حیائی نے ہر جگہ اپنا اثر ہے۔اس مارچ میں حصہ لینے والے بے شرم عورتوں نے اپنی عزت کی چادر تواتار کر پھینک دی ہے ساتھ ساتھ مسلم معاشرے کی با پردہ عورتوں کو بھی پانی پانی کر دیا ۔ سوشل میڈیا سمیت ہرطرف اس مارچ میں ہونے والی بے حیائی پربحث و مباحثے جاری ہیں۔ جس میں سیاست دانوں نے بھی اپنی رائے دینے سے گریز نہیں کیا۔
 ’عورت مارچ‘ اور اس کے مخصوص نعرے ’میرا جسم میری مرضی‘ کیخلاف جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانافضل الرحمان نے کہاتھا کہ ’میرا جسم میری مرضی‘ فحاشی ہے۔آئین، قانون اور تہذیب اس کی اجازت نہیں دیتی، یہ نعرہ صرف ایک فیصد طبقے کا ہے۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ عورت مارچ باہر کا ایجنڈا ہے، یہ کون سا حق مانگ رہے ہیں؟۔ وراثت، جائیداد اور معاشرے میں اسلام نے عورت کو حصہ اور مقام دیا ہے ۔مگر اب اس طرح مارچ کر کے اپنا حق مانگنے والے کچھ لوگ ملک کو زمانہ جہالت کی طرف لے جارہے ہیں۔
 ”میرا جسم میری مرضی “ نعرہ استعمال کرنے والوں میںماروی سرمد پیش پیش ہیں۔ انہوں نے واضح طور پر سب کے سامنے اعلانیہ کہا کہ میرا جسم میری مرضی ہے بھائی! ہمارے جسم کے اوپر آپ کی مرضی نہیں چلے گی! وہ دن چلے گئے! جب آپ کی مرضی ہمارے جسم پہ چلتی تھی!مگر اب نہیں ہمارے جسم پہ ہماری مرضی ہی چلے گی کیونکہ عورتیں اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ جتنے بچے چاہیں گی پیدا کریں گی، نہیں چاہیں گی تو نہیں پیدا کریں گی۔ماروی سرمد نے مزید کہا کہ ہم چاہیں گے تو ہمارے شوہر ہمارے ساتھ تعلق بنائیں گے، نہیں چاہیں گی تو نہیں بنائیں گی۔ آپ کیا چاہتے ہیں کہ یہاں ریپ ہوں لڑکیوں کے؟ لڑکیاں خاموشی سے ظلم برداشت کرتی جائیں؟ ایسا نہیں ہو گا۔ ہم اپنی مرضی کی مالک ہوں گی۔ ہم اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کریں گی۔ آخر کیوں عورت کو اپنی بات کہنے کا حق نہیں ہے؟ ماروی سرمد کا مزید کہنا تھا کہ خادم رضوی نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، وزیراعظم عمران خان اور سپریم کورٹ کے ججز جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید خان کھوسہ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل کا نام لے کر ان کو قتل کرنے اور ان کی ماو¿ں کے ریپ کرنے کی بات کی اور گالیاں بکی تھیں۔تب تو کسی نے کچھ نہیں کہا کوئی ان کے خلاف نہیں بولا ۔ اور آج جب ہم نے اپنے لیے آواز اٹھائی تو لوگو نے فتوے لگانا شروع کر دیئے۔
ایک اسلامی ملک میں عورتوں کے حقوق کے نام پر ”میرا جسم میری مرضی“ جیسی مہم چلائے جانے سے متعلق خلیل الرحمٰن قمر کی رائے بہت مضبوط ہے اور وہ معاشرے کے ایک بہت بڑے حصے کے خیالات کی ترجمانی بھی کرتے ہیں لیکن گزشتہ روز ایک ٹی وی ٹاک شو میں اس موضوع پر بات کرتے ہوئے وہ ماروی سرمدکے ساتھ الجھ پڑے اور ایسی زبان استعمال کی جو انتہائی غیر مناسب تھی، جس کی وجہ سے ان کی اصل دلیل ہی دب گئی اور ایک نئے تنازع نے خصوصاً سوشل میڈیا پر جنم لے لیا۔
 ایک طرف بہت سے افراد نے خلیل الرحمٰن قمر کی غلط زبان کے استعمال پر ا±ن کی شدید مذمت کی۔ اورسب سے زیادہ تنقید کرنے والوں میں شاہزیب خانزادہ سرِ فہرست ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا جسم میری مرضی کے نعرے پر تنقید کی جارہی ہے۔ اگر یہ نعرہ غلط ہو تو اسکے برعکس کیا نعرہ ہونا چاہئے؟ کیا یہ نعرہ ہونا چاہئے کہ میرا جسم کسی اور کی مرضی۔۔

لبرل خواتین کے نعرے "میرا جسم میری مرضی” کا دفاع کرتے ہوئے شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ خواتین کو پسا ہوا طبقہ سمجھا جاتا ہے، انکی کم عمری میں شادی کردی جاتی ہے۔ وہ اولاد چاہتی ہیں یا نہیں اس میں بھی انکی مرضی شامل نہیں ہوتی۔ وہ کتنے بچے چاہتی ہیں، اس میں بھی انکی مرضی شامل نہیں ہوتی۔ ایک تو بچی کی کم عمری میں شادی کردی جاتی ہے، پھر ان پر بچے پیدا کرنے اور پالنے کی ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے۔یہ کہا کا انصاف ہے۔ کیا عورت بچے پیدا کرنے والی مشین ہے؟؟۔ اور صرف اسی مقصد کے لیے دنیا میں بھیجی گئی ہے۔ 
 خلیل الرحمن قمر کی لائیو شو میں نازیبا زبان استعمال کرنے پر شوبز کی شخصیات کی طرف سے بھی مذمت کی جارہی ہے لیکن خلیل الرحمان قمرکو نا تو کوئی افسوس ہے اور نہ شرمندگی۔ اور وہ اپنی کئے پر معافی مانگنے کو تیار نہیں ہیں۔
دوسری طرف کئی لوگوں نے خلیل الرحمن قمر کے حق میں بھی اپنی رائے دی اور کہا کہ ”میرا جسم میری مرضی“ کے سلوگن سے گزشتہ چند سالوں سے عورت مارچ کے نام پر جو کچھ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان میں ہوتا رہا، وہ بقول خلیل الرحمٰن قمر کے واقعی گھٹیا، غلیظ بلکہ میری رائے میں اس ملک میں بے راہ روی، فحاشی و عریانیت پھیلانے کے ساتھ ساتھ ہمارے خاندانی نظام اور معاشرتی اقدار کو تار تار کرنے کی مہم تھی لیکن اگر ” میرا جسم میری مرضی“ کی مہم غلط نہیںاور یہ نعرہ بھی جائز ہے تو پھر ”میری زبان میری مرضی“ کا بھی حق خلیل الرحمٰن قمر سمیت کسی کوبھی دیا جا سکتا ہے۔
جو کچھ عورت مارچ کے نام پر ہوا اس پر تو پاکستان کے لبرل اور سیکولر طبقے کی اکثریت تک نے تھو تھو کیا۔ اگر ماضی کو گواہ رکھا جائے اور جس قسم کے واہیات نعرے گزشتہ سال کے مارچ کے دوران پلے کارڈز پر درج تھے اور مارچ میں لگائے گئے ان کے تناظر میں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے غیر آئینی فعل کو روکا جائے، لیکن اگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو کسی فرد یا گروہ کو قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے۔
اسی سلسلے میںلاہور ہائی کورٹ میںمنیر احمد نامی شخص کی جانب سے درخواست دائر کروائی گئی تھی۔ اس درخواست میں عدالت سے کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی یعنی پی ٹی اے کو سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے حال ہی میں ترتیب دیے جانے والے قانون ’سٹیزن پروٹیکشن (اگینسٹ آن لائن ہارم) 2020‘ کو باضابطہ لاگو کرنے کا حکم دیا جائے۔ ’ایسا طریقہ کار وضح کیا جائے جس کے ذریعے اس قانون پر موزوں اور فوری عملدرآمد ممکن بنایا جائے۔‘
ساتھ ہی عدالت سے یہ استدعا بھی کی گئی ہے کہ وہ پنجاب حکومت کو ’پنجاب ریڈ زون ایکٹ 2018‘ نافذ کرنے کی ہدایت دے جس کے ذریعے عورت مارچ جیسے مظاہروں پر قابو پایا جا سکے گا۔‘ 8 مارچ کو عورتوں کے عالمی دن یا 'عورت مارچ' کے موقع پر سینکڑوں خواتین ایک مرتبہ پھر مارچ کریں گی۔ ’انھوں نے ایسے بینر اٹھا رکھے ہوں گے جن پر درج پیغامات سے انتشار اور فحاشی عیاں ہوتی ہے۔‘انہوں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اگر سوشل میڈیا کو ریگولیٹ نہ کیا گیا تو اس سے 'ریاست مخالف دن کی تشہیر کے لیے' سوشل میڈیا کو بھر پور طریقے سے استعمال کیا جائے گا۔
درخواست دائر کروانے کا واضح مقصد یہ تھا کہ عورت مارچ کو روکا جائے لیکن جو کچھ عدالت نے کیا وہ مایوس میں اضافے کے سوا اورکچھ نہیں ہے۔وکیل اظہر صدیق کے ذریعے اس درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مامون الرشید شیخ نے کہا کہ ’آئینِ پاکستان میں ہر شخص کو انجمن سازی کی آزادی حاصل ہے۔‘عدالت نے پولیس کو عورت مارچ کو مکمل سکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے عورت مارچ کے منتظمین کو بھی ’بداخلاقی اور نفرت انگیزی سے باز‘ رہنے کی ہدایت کی۔
وکیل اظہر صدیق نے درخواست میں عدالت سے استدعا کی تھی کہ مارچ کو روکنے کے لیے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے حالیہ قانون اور پنجاب ریڈ زون ایکٹ کو لاگو کرنے کے لیے حکومت کو ہدایات جاری کی جائیں۔
تاہم ان کی درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرنے کے بعد عدالت نے نشاندہی کی تھی کہ آئین کے تحت عورت مارچ کے انعقاد کو روکا نہیں جا سکتا۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے پولیس اور انتظامیہ سے مارچ کو سکیورٹی فراہم کرنے کی بات بھی کی۔جس پر پولیس کی طرف سے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس نے بتایا کہ عورت مارچ کو 'فول پروف سکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایات‘ جاری کر دی گئیں ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ عورتوں کے عالمی دن پر ہونے والی مارچ میں فحاشی،بے حیائی زبان زد عام رہتی ہے یا واقعی یہ لبرل خواتین اپنے کسی حق کا مطالبہ کرتی ہیں۔