دنیا کی ایسی خاتون جس کے پاس جانا تو کیا کوئی بلانا بھی پسند نہیں کرتا۔۔اور وجہ ایسی کہ جان کر آپ بھی سوچ میں پڑ جائیں گے۔
لندن (مانیٹرنگ ڈیسک)خواتین جیسی بھی صورت اور شخصیت کی مالک ہوں کم از کم مرد ضرور ان کی تعریف کرتے ہیں اور ہمہ وقت ان کی معیت کے خواہاں بھی نظر آتے ہیں، مگر برطانوی خاتون کیلی فیڈووائٹ کی بدقسمتی دیکھئے کہ انہیں دیکھتے ہیں ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ جس قدر ممکن ہو سکے ان سے دور چلے جائیں۔ میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق کیلی کے جسم سے ہر وقت مچھلی اور پیاز کی بدبو آتی ہے، جو اس قدر ناگوار اور تیز ہوتی ہے کہ اکثر لوگوں کیلئے اسے برداشت کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اسی بدبو کی وجہ سے ان کے ساتھیوں نے احتجاج شروع کر دیا اور اب انہیں نائٹ شفٹ میں کام کرنا پڑتا ہے، کیونکہ رات کے وقت لوگوں کی تعداد کم ہوتی ہے.دراصل وہ ’ٹرائی میتھائلا مینوریا‘ نامی بیماری کا شکار ہیں، جسے عام الفاظ میں ’فش اوڈر سنڈروم‘ بھی کہا جاتا ہے۔ کیلی کا کہنا ہے کہ بچپن سے ہی ان کے جسم سے مچھلی اور پیاز جیسی بدبو آتی ہے جس کی وجہ سے انہیں ہمیشہ تضحیک و تحقیر کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ وہ رائل اولڈ ہیم ہسپتال میں ملازمت کرتی ہیں، جہاں ان کے ساتھیوں نے اعتراض شروع کر دیا تو انہوں نے خوشبو کا استعمال بڑھا دیا اور دن میں دو بار اپنا یونیفارم بھی تبدیل کیا کرتی تھیں لیکن اس کے باوجود مسئلہ حل نہ ہوا۔ جب ان کے ساتھیوں کے اعتراضات بہت بڑھ گئے تو انہوں نے مجبوراً اپنی ڈیوٹی نائٹ شفٹ میں لگوالی کیونکہ اس وقت لوگ قدرے کم ہوتے ہیں۔ کیلی کے خاوند مائیکل کا کہنا ہے کہ وہ اب اس بدبو کے عادی ہو چکے ہیں اور انہیں کوئی مسئلہ پیش نہیں آتا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کا جسم خوراک میں موجود کچھ ایسے مرکبات کو تحلیل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جن میں کولین نامی مادہ پایا جاتا ہے۔ جب یہ مرکبات پسینے کے ذریعے خارج ہوتے ہیں تو شدید بدبو پیدا کرتے ہیں، جو مچھلی اور پیاز کی بدبو سے مماثلت رکھتی ہے۔ کیلی نے اس مسئلے کا بہت علاج کروانے کی کوشش کی لیکن کچھ افادہ نہ ہوا، جس کے بعد انہوں نے حالات سے سمجھوتا کر لیا ہے۔کیلی کے ساتھ کام کرنے والے ریڈیو گرافر فیصل بشیر نے بتایا کہ ”جب وہ برآمدے میں داخل ہوتی ہیں تو ان کی بو محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہ بہت تیز اور مختلف قسم کی بدبو ہوتی ہے جس سے پتہ چل جاتا ہے کہ کیلی آرہی ہیں ۔ مجھ سے کئی لوگوں نے کیلی کی بدبو کے بارے میں بات کی ہے، اور مجھے یہ سن کر دکھ ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک اچھی دوست ہیں۔ میں دوسال سے ان کے ساتھ کام کر رہا ہوں اور میں نے کبھی ان سے شکایت نہیں کی۔ کاش دوسرے لوگ بھی ان کی پریشانی کو سمجھ سکیں۔“اور اندازہ لگا سکیں کہ کسی کو اس کی غلطی کے بغیر سزا دینا کتنا تکلیف دیتا ہے۔کیونکہ میں مانتا ہوں کہ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔