قبائلی علاقوں میں ڈیوٹی پر مامور خواتین پولیس اہلکار

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 24, 2017 | 09:55 صبح

لنڈی کوتل(مانیٹرنگ رپورٹ)پاکستانی شمال مغربی قبائلی علاقے اپنی سخت روایات کی وجہ سے مشہور ہیں۔ ان روایات میں سے ایک خواتین کا گھر کی چار دیواری میں رہنا بھی شامل ہے لیکن لنڈی کوتل کے چار خواتین کی پولیس میں شمولیت نے اس روایت کو بدل ڈالا ہے۔مہک پرویز نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی ہے ان کی ابتدا ہی سے یہ خواہش تھی کہ وہ فورسز کا حصہ بنیں.

قبائلی علاقوں میں ناساز گار حالات پر قابو پانے کے لیے جہاں سکیورٹی اداروں نے مختلف مقامات اور گزرگاہوں کی نگرانی سخت کردی تھی وہی قبائلی روایات کا پاس رک

ھتے ہوئے خواتین کی تلاشی اور نگرانی کسی چیلنج سے کم نہیں تھی۔ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے انتظامیہ نے گزشتہ برس لیوی فورسز میں خواتین کی بھرتیوں کا اعلان کیا، جس میں درجنوں خواتین نے بھرتی کے لیے اپنے ناموں کا اندراج کروایا لیکن ان تمام کا تعلق اقلیتی مذہبی گھرانوں سے تھا۔مہک پرویز نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی ہے ان کی ابتدا ہی سے یہ خواہش تھی کہ وہ فورسز کا حصہ بنیں۔ قبائلی پولیس میں بھرتی کے وقت وہ دو بچوں کی ماں تھیں۔ تاہم گھر سے آسانی کے ساتھ اجازت ملنے کے بعد مہک بھی ان چار مسیحی خواتین میں شامل ہوئیں، جنہوں نے فاٹا کی تاریخ میں اولین خواتین پولیس اہلکار بننے کا اعزاز حاصل کیا۔خبر رساں ادارے سے خصوصی بات چیت کے دوران مہک پرویز کا کہنا تھا کہ یونیفارم پہن کر اپنے ملک کی حفاظت کے لیے اپنے فرائض سرانجام دینے سے ان کو سکون حاصل ہوتا ہے۔ اپنی ابتدائی پیشہ وارانہ تربیت کے بارے میں مہک بتاتی ہیں کہ تربیت سے پہلے سلیکشن کے دوران بھی ہمیں کافی مشکل مرحلوں سے گزارا گیا تھا، لیکن پانچ مہینوں پر مشتمل ٹریننگ کے ابتدائی دن میرے لیے بہت سخت تھے۔وہ مزید کہتی ہیں کہ رائفل کا استعمال ان کے لیے نیا اور مشکل کام تھا۔ قبائلی رسم و رواج کے مطابق ان علاقوں میں خواتین برقعہ پہنتی ہیں، لہذا تلاشی کے لیے ان اہلکاروں کی زیادہ تر ایسے علاقوں میں ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں جہاں پر خواتین کا گزر ہو۔مہک پرویز کے شوہر غفار مسیح اپنی اہلیہ کے اس فیصلے سے کافی خوش ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اقلیتی برادریوں کو اس قسم کے مواقع فراہم کرنا ایک اچھا شگون ہے۔ایک سوال کے جواب میں غفار مسیح کا کہنا تھا کہ یہ بھرتیاں صرف اقلیتوں کے لیے نہیں تھیں، اس میں کسی بھی مذہب یا نسل کی قبائلی خاتون شامل ہو سکتی تھیں، صرف مسیحی خواتین کا سامنے آنا ان کے سمجھ سے باہر ہے تاہم اپنی برادری کی کامیابی پر وہ خوش ہیں۔ قبائلی علاقوں میں مقیم مسیحی برادری کے سربراہ ولسن وزیر مسیح کے بقول فاٹا میں قریب پچیس ہزار عیسائی مذہب کے پیروکار آباد ہیں جبکہ خیبر ایجنسی میں ان کی تعداد تقریباً سات ہزار ہے۔ وہ اپنی برادری کی خواتین کی طرف سے سکیورٹی فورسز میں شامل ہونے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ یہ ایک فخر کی بات ہے، ہماری بچیاں لیویز میں بھرتی ہوئی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ان پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوئی ہے جس کو اب انہیں ایمانداری کے ساتھ نبھانا ہے۔مہک پرویز کے مطابق ان کو اور ان کے خاندان کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ یہ پیشہ خطرے سے خالی نہیں ہے لیکن پھر بھی انہوں نے یہ پیشہ اختیار کیا ہے تاکہ ملک کی خدمت کی جا سکے۔