2017 ,مارچ 4
یہ دیہاتی لوگ ان خواتین کو اچھوت قرار دیتے ہیں اور انہیں اجازت نہیں ہوتی کہ وہ کھانے پینے کی اشیاء، مردوں اور حتیٰ کہ جانوروں کو بھی چھوئیں۔ انہیں جنگل میں بنی جھونپڑیوں میں چھوڑدیا جاتا ہے، جہاں یہ شدید سردی اور جھلسادینے والی گرمی میں بھی بغیر کسی مدد کے کئی دن تنہا گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں۔مقامی لوگ جنگل میں بنی ان جھونپڑیوں کو ’چھاﺅ گوٹ‘ کہتے ہیں اور اس قبیح رسم کو ’چھاﺅ پدی‘ کہا جاتا ہے۔
ایک چھاﺅ گوٹ میں چھوڑی گئی 23 سالہ لڑکی گیری نے بتایا کہ پہلے پہل اسے جنگل میں آنے سے بہت خوف محسوس ہوتا تھا لیکن پھر وہ اس کی عادی ہوگئی۔صرف ایام مخصوصہ کے اوقات میں ہی عورتوں کو جنگل میں نہیں چھوڑا جاتا بلکہ زچگی کے بعد بھی انہیں مہینے بھر کے لئے یہاں لاکر چھوڑدیا جاتا ہے۔ بعض اوقات موسم کی شدت اور بیماری کے باعث خواتین کی موت بھی ہوجاتی ہے لیکن اس کے باوجود یہ رسم صدیوں سے جاری ہے۔
اگرچہ حکومت اس رسم کو خلاف قانون قرار دے چکی ہے مگر سنگدل دیہاتیوں کو کون سمجھائے جو بیچاری خواتین کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں، اور اس ظلم پر شرمندہ ہونے کی بجائے فخر کرتے ہیں۔ قانون ہونے کے باوجود اس پر کوئی عمل نہیں کیا گیا۔اور آج بھی عورتوں کو جانوروں کی طرح استعمال میں لا رہے ہیں۔