جائے ملازمت پرخواتین کے لیے باوقار ماحول، اہم ضرورت۔

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 03, 2022 | 08:02 صبح

یہ ایک فائیو سٹار ہوٹل کا ایک شان دار ہال تھا ۔جس میں چالیس پچاس صحافی خواتین بیٹھی ہوئی تھیں۔وہ سب وائز کے زیر ہتمام ایک ٹریینگ سیشن کا حصہ تھیں جن میں انہیں بتایا جارہاتھا کہ انہیں اپنے ملازمت کی جگہوں پر خود کو جنسی ہراسگی سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہراسگی کی تعریف کیا ہے ۔؟ جائے ملازمت پر خواتین کے لیے خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنا، آوازیں کسنا، غیر اخلاقی رویہ رکھنا، زبردستی تعلق رکھنے پر مجبور کرنا، انکار کی صورت میں سنگین دھمکیا ںدینا، دفتری مرا
عات و ملازمت اور ترقی کو ذاتی تعلق سے مشروط کرناخواتین کو جنسی بنیاد پر ہراساں کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ اس ٹریننگ میں میزبان نے خواتین سے کچھ سوالات پوچھے جن کا لب لباب یہ تھا کہ آیا وہ سب اپنی ملازمت کی جگہوں پر خود کو محفوظ و مامون تصور کرتی ہیں۔یہ ایک ایسا سوال تھا جس کا جواب ہر خاتون نے ”نہیں “ میں دیا۔کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں کہ کوئی بھی خاتون ایسی نہیں تھی جو اپنی کام والی جگہ پر مطمئن ہو۔ ان خواتین کی ” نہیں “ کو سمجھنے کے لیے ہمیں ہراساں کیے جانے کی مذکورہ تمام اشکال کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ میزبان نے ایک اور سوال داغاکہ ایک پروپیگنڈہ یہ بھی عام ہورہا ہے کہ خواتین خود کو مظلوم ثابت کرنے یا فوائد کے حصول کے لیے مردوں پر جنسی ہراسگی کے الزامات لگاتی ہیں۔ اس سوال پر بھی متفقہ جواب ” نہیں “ آیا۔سب کا موقف تھا کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں ، وہاں کوئی عورت صرف فوائد کے حصول کے لیے خود کو بدنامی کے گڑھے میں نہیں دھکیل سکتی ۔ چند عورتوں کی امثال کو اکثریت پر لاگو نہیں کیا جاسکتا۔ مخصوص ذہنیت کے مردوں نے عورت کے حقوق کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے یہ مہم دانستہ چلانے کا بیڑا اٹھا لیا ہے ۔ اس میں وہ منفی ذہنیت کے حامل لوگ اپنا حصہ شدو مد سے ڈال رہے ہیں جو خواتین کی کردار کشی میں سبقت رکھتے ہیں۔ اس ٹریننگ میں خواتین کوبتایا گیا کہ ایسے واقعات کو رپورٹ کرنے سے ہی ان کی روک تھام کی جاسکے گی ۔خواتین کی خاموشی ایسے واقعات کو بڑھاوادیتی ہے ۔انہیں بزدلی کے چولے کو اتارنا ہوگا۔ اس بات کی وضاحت ایک خاتون نے عمدہ انداز میں کی کہ عورت جب گھر سے نکلتی ہے تو گھر سے نکلنے سے لے کر واپس گھر پہنچنے تک اسے کئی مقامات پر کسی نہ کسی صورت میں ہراساں کیا جاتا ہے ۔ کوئی اسے دیکھ کر فقرہ کس دیتا ہے اور کوئی راہ چلتے ہوئے اسے چھیڑنے کی کو شش کرتا ہے ۔ کبھی کبھی یہ کوشش تعاقب کی صورت میں بھی سامنے آتی ہے ۔وہ ایسی صورت حال پر کئی دفعہ چلا اٹھتی ہے اور مدمقابل کو کھری کھری سناتی ہے جس سے اسے بھاگتے ہی بنتی ہے ۔لیکن یہی بہادر عورت اپنے کام والی جگہ پر ایک خاموش کردار بن کر اندر ہی اندر جلتی کڑھتی رہتی ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ یہاں اس کی ملازمت چلی جائے گی ۔وہ الٹا بدنام بھی ہوجائے گی ۔عورت کے لیے اس کی ہراسگی سے کہیں زیادہ اہم اپنے آپ کو بدنامی سے بچانا ہے کیونکہ اس معاشرے میں ” بد اچھا ، بدنام برا “ کا راج ہے۔ اسے شادی بھی کرنا ہے ، بچے بھی پیداکرنا ہیں ، رشتوں کو نبھانا بھی ہے جن کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں۔ درحقیقت وہ اپنے آپ کو بدنامی سے بچا کر اپنے پورے خاندان کی عزت ، نیک نامی اور ساکھ کو بچارہی ہوتی ہے۔ درحقیقت تبادلہ خیال سے اس حقیقت پر مہر ثبت ہوتی ہے کہ خواتین کام والی جگہوں پر کس دباﺅ کا سامنا کرتی ہیں اور ہراسگی کی مختلف صورتوں کو برداشت کرتی ہیں جن میں ذہنی ، نفسیاتی اور جسمانی جبر عام ہے ۔ اس سچائی کو اب کھلے دل سے قبول کرلینا چاہیے کہ اس دور میں ملازمت ہر عورت کی ضرورت بنتی جارہی ہے جس کے ذر یعے وہ اپنی اور اپنے گھر کے مکینوں کی زندگی کو بہتر بناسکتی ہے۔ ۔ہم میں سے بہت سی عورتیں ہیں جو چاہتی ہیں کہ ان کی ذمہ داریاں کوئی خوشی سے اپنے کندھوں پر اٹھالے ۔ ان کی ضرورتیں پوری ہوں اور وہ سکھ چین سے کھانا پکاتے ہوئے گانے سنیں یا اپنی من پسند اشیا کی خریداری کے لیے مارکیٹ میں نکل جائیں۔ لیکن یہ سب اب خواب کے جیسا ہے ۔ مہنگائی کے باعث پیدا ہونے والے مسائل اور مصائب نے عام آدمی کی زندگی کو بہت مشکل بنا دیا ہے ۔ پہلے عورت صرف مخصوص شعبوں میں نظر آتی تھی لیکن اب اردو بازار کی دکانوں ، میڈیکل سٹورز، کاسمیٹکس شاپس، منڈی ، اور ہر اس جگہ پر نظر آنے لگی ہیں جہاں عورتوں کی ملازمت کا گمان بھی نہ تھا تو کیا ان عورتوں کو گھر میں روک کر رکھنا ہوگا یا رزق حلال کی تلاش میں باہر جانے دینا ہوگا۔ پہلی صورت اب ممکن نہیں رہی ۔ ایک فرد دن رات محنت کر کے بھی گھر کا سکھ آرام نہیں خرید سکتا۔ بہترصورت اس کے لیے باہر کے ماحول کو سازگار بنانا ہے تاکہ وہ جبری تعلقات سے بچ کر روزگار کماسکے یا تعلیم و تربیت حاصل کرسکے ۔ باہر کی دنیا میں خواتین کے لیے ایک باوقار ماحول بہت ضروری ہے ۔ اس ٹریننگ میں خواتین کو مفصل بتایا گیا کہ خواتین تحفظ ایکٹ ۲۱۰۲ کا نفاذ خواتین کو معاشرے میں محفوط بنانے کی طرف ایک مستحسن اقدام ہے ۔ اس ایکٹ کو جائے ملازمت پر نمایاں جگہ پر آویزاں کرنا بھی لازم ہے ۔کسی بھی ادارے میں ان قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی صورت میں آجر کو ایک لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے ۔ اس کے لیے اب اداروں میں ضابطہ اخلاق بھی آویزاں کیا جارہا ہے تاکہ اس میں کام کرنے والے تمام ارکان کو باوقار ماحول بنانے میں مدد ملے۔خواتین کے علم میں ہونا چاہیے کہ جنسی ہراسگی کا شکار ہونے کی صورت میں انہیں کیاکرنا ہے ۔ اب کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف موثر قانون کا اطلاق ہوچکا ہے ۔ہراساں کیے جانے کی صورت میں خاتون وفاقی محتسب کو درخواست دے سکتی ہے ۔ اس کے لیے خاتون محتسب کا تقرر کیا جاچکا ہے ۔ یہ ادارہ کام کرنے کی جگہ پر جنسی ہراساں کیے جانے کے خلاف شکایات اور اپیلیں وصول کرکے ملازمت پیشہ خواتین کو تحفظ اور انصاف فراہم کررہا ہے ۔ سرکاری دفاتر میں ہراساں کیے جانے کی صورت میں خواتین کی شکایت پر انکوائری کمیٹیاں موجود ہیں جس میں دومرد اور ایک خاتون کا ہونا لازمی ہے۔ انکوائری کمیٹی ملزم کے خلاف تفتیش، جرم ثابت ہونے پر سزا تجویز کرتی اور اپنی سفارشات مجازاتھارٹی کو عمل درامد کے لیے بھجواتی ہے ۔انکوائری کمیٹی کے فیصلے کے خلاف مطمئن نہ ہونے پر وفاقی یا صوبائی محتسب کے پاس معاملہ لے جایا جاسکتا ہے ۔ ان کے فیصلوں پر بھی عدم اطمینان کی صورت میں گورنر یا صدر پاکستان کے پاس اپیل کی جاسکتی ہے فسٹ کلاس مجسٹریٹ ان مقدمات کی سماعت کرسکتا ہے ۔اس قانون کے تحت تین سال تک قیدیا پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ یادونوں سزائیں اکٹھی دی جاسکتی ہیں۔یہ جرم قابل ضمانت یا راضی نامہ ہے ۔ یہ سب قوانین اپنی جگہ ہیں لیکن انصاف کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں جب تک نظام دیانت دارانہ نہ ہو۔ بدقسمتی سے ہم انصاف کے حصول میں قطار کے آخر میں کھڑے ہیں ۔ در انصاف پر پہنچنے کے بعد بھی ہمیں یہ یقین قطعا نہیں کہ ہمیں انصاف ملے گا کیونکہ یہاں دن دیہاڑے ہونے والے کئی واقعات میں بھی انصاف کی دھجیاں اس انداز سے اڑائی جاچکی ہیں کہ اب انصاف کی بات کرنا بھی مذاق لگتا ہے ۔لیکن تیز ہوا اور آندھی طوفان کے باوجود انصاف کے دئیے کو جلائے رکھنا ہی انسانیت ہے۔آئیے ہم سب پوری سچائی اور دیانت داری سے انصاف کا دیا جلاتے ہیں۔