یادش بخیر۔۔نواز شریف کو میں نے پھانسی سے بچایا تھا،زرداری

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 30, 2017 | 07:50 صبح

لاہور(خصوصی رپورٹ)صدر آصف زرداری ک

ی طرف سے سابق وزیراعظم نوازشریف کو طیارہ سازش کیس میں سزائے موت سے بچانے کے دعوے کے بعد دو اہم سوال ابھرکر سامنے آتے ہیں۔

 

ایک یہ کہ کیا مقدمے کی سماعت کرنے والے خصوصی عدالت کے جج رحمت حسین جعفری (جو بعد ازاں جسٹس بنے) پر فوجی حکام کی طرف سے نوازشریف کو پھانسی دینے کا دبائو تھا اور دوئم یہ کہ کیا آصف زرداری نے لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے جج کو فیصلے سے باز رکھنے کیلئے کوئی درخواست کی تھی۔ اس بات کی وضاحت تو خود جسٹس (ر) رحمت حسین جعفری کرسکتے ہیں تاہم اگر یہ دعویٰ درست ہے تو یہ ایک اتفاق ہوگا کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس نسیم حسن شاہ نے لاڑکانہ کے وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کو سزائے موت دینے میں دبائو قبول کرلیا، اس بات کا اعتراف خود نسیم حسن شاہ کرچکے ہیں۔

دوسری طرف لاڑکانہ کے جج رحمت جعفری نے لاہور سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم کو سزائے موت نہیںسنائی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آرمی چیف جنرل مشرف کا طیارہ اغوأ کرنے کے کیس میں جسٹس جعفری نے نوازشریف کے سوا معزول وزیراعلیٰ شہبازشریف سمیت تمام ملزموں کو بری کردیا تھا اور دہشت گردی اور طیارہ اغوأ کی دفعات لگنے کے باوجود نوازشریف کو عمرقید سنائی گئی۔ سندھ ہائیکورٹ نے وفاق کی طرف سے نوازشریف کو سزائے موت دینے کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سزائے قید کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اس ضمن میں ایکسپریس نیوز کے ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز نے نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’’مجھے اس بات کا کچھ علم نہیں، اس کی وضاحت خود جسٹس رحمت جعفری کو کرنے دیں، آپ کو پتہ ہے کہ ہمارے خاندان کے ساتھ جنرل مشرف نے کیا سلوک کیا تھا۔

Advertisement

 

13

میرے والد کو کراچی اور اٹک جیل میں رکھا گیا، چچا شہباز شریف لاہور جیل میں تھے اور میرے بھائی ایک اور جیل میں تھے‘‘۔ مریم نواز نے فیصلہ سنتے وقت انتہائی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمرہ عدالت میں بھرپور احتجاج کیا تھا۔ صدر آصف زرداری نے نوازشریف کی طرف سے انکے بھائی عباس شریف کی رحلت پر تعزیت کیلئے ملاقات کرنے کی درخواست مسترد ہونے پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پھانسی سے بچانے کی بات کی۔ نوازشریف کا یہ کہنا کہ صدر مملکت پہلے ہی فون پر میرے بھائی کے انتقال پر تعزیت کرچکے ہیں۔ شاید اس کی وجہ عام انتخابات سر پر آنے کی وجہ سے سیاسی افواہوں سے بچنا ہے۔

صدر کے غصے کی ممکنہ وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں تعزیت کرنے سے روکنے کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ خود نوازشریف نے بے نظیر بھٹو کے قتل پر لاڑکانہ جاکر آصف زرداری سے تعزیت کی تھی۔ صدر زرداری کیلئے نوازشریف کا انکار انتہائی غیرمتوقع تھا اور وہ مثبت سگنل کی امید رکھ رہے تھے۔ قبل ازیں نوازشریف اور صدر آصف زرداری نے آج تک ایک دوسرے کے خلاف زبان استعمال کرنے سے گریز کیا اور دونوں رہنما ایک دوسرے کیلئے ’’میاں صاحب‘‘ اور ’’زرداری صاحب‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے رہے۔

اس کے برعکس وزیراعلیٰ شہبازشریف نے ہمیشہ صدر مملکت کے خلاف تندوتیز زبان استعمال کی۔ اس تناظر میں دلچسپ بات یہ سامنے آتی ہے کہ کیا نوازشریف عام انتخابات میں کامیابی کی صورت میں بطور وزیراعظم صدر زرداری سے حلف لیں گے، ماضی میں تو وہ کہہ چکے ہیں کہ آصف زرداری آئینی صدر ہیں اور وہ ان سے حلف لیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انہی دنوں یہ خبر اس طرح شائع ہوئی تھی

مشرف فیصلہ کر چکے تھے، نواز شریف کو تختہ دار پر لٹکنے سے بچایا،زرداری

 

خالد قیوم  جمعرات 14 فروری 2013

 

  جج رحمت جعفری کو میں نے پیغام بھجوایا کہ کسی صورت سزائے موت جیسا فیصلہ نہ کرنا،نواز شریف نے بھائی کی وفات پر تعزیت کیلیے ملاقات کی خواہش قبول نہیں کی فوٹو : فائل

جج رحمت جعفری کو میں نے پیغام بھجوایا کہ کسی صورت سزائے موت جیسا فیصلہ نہ کرنا،نواز شریف نے بھائی کی وفات پر تعزیت کیلیے ملاقات کی خواہش قبول نہیں کی فوٹو : فائل

لاہور: صدرآصف زرداری نے کہا ہے کہ نواز شریف نے میری طرف سے اپنے بھائی عباس شریف کی وفات پر تعزیت کیلیے ملاقات کی خواہش قبول نہیں کی۔

۔حالانکہ میں ہی وہ شخص ہوں جس نے جنرل پرویز کے ہاتھوں نواز شریف کو تختہ دار پر لٹکنے سے بچایا،جنرل پرویز مشرف،نوازشریف کوسزا دلوانے کا فیصلہ کر چکے تھے اور وہ اس کیلیے فوج کا پلیٹ فارم استعمال کررہے تھے۔

بلاول ہائوس لاہور میں ملاقاتیوں سے گفتگومیں انھوں نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف نے طیارہ سازش کیس میں نواز شریف کوسزا دلوانے کیلیے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے اس وقت کے جج جسٹس (ر) رحمت حسین جعفری پر بہت دباؤ ڈال رکھا تھا۔ جیل میں نواز شریف سے میری دوستی ہو چکی تھی، عدالت میں پیشی پربھی ان سے ملاقات ہوجاتی تھی،میں توجیل میں بیٹھ کر بھی اگر کچھ کہہ دیتاکہ ایسا ہوگا تو وہ ہوتاتھا۔

 

نوائے وقت ۲۱ اکتوبر ۲۰۱۱ کی خبر ملاحظہ فرمائیں

 

 

نوازشریف کو مشرف دور میں پھانسی سے آصف زرداری نے بچایا تھا: خورشید شاہ

اسلام آباد (آئی این پی) وفاقی وزیر مذہبی امور سید خورشید احمد شاہ نے الزام عائد کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف پنجاب میں وفاقی حکومت کے خلاف تحریک چلا کر پاکستان توڑنے کی کوشش کررہے ہیں، انہیں مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ وہ صدر آصف زرداری کے احسانات نہ بھولیں جب مشرف دور میں میاں نواز شریف کو پی سی او عدلیہ نے پھانسی دینے کا سوچا تھا تو صدر آصف زرداری نے جیل سے یہ پیغام بھجوایا تھا کہ نواز شریف سندھ کے مہمان ہیں اور انہیں کچھ ہوا تو ہم کسی کو نہیں چھوڑیں گے‘ اپوزیشن کی تحریک سے نہ تو جمہوریت ڈی ریل ہوگی اور نہ ہی حکومت کو کوئی خطرہ ہے‘ ہم گندی سیاست کی روایات کو دوبارہ بحال نہیں کرنا چاہتے‘ صدر پر الزامات لگانے والے عدلیہ سے رجوع کریں۔ جمعرات کویہاں پارلیمنٹ ہاﺅس میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ملکی تاریخ کی پہلی مثال ہوگی کہ ایک صوبے کا وزیراعلیٰ حکومت کے خلاف نکالے جانے والے جلوسوں کی قیادت کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ کیا یہ تحریک پاکستان توڑنے کی طرف ایک قدم ہوگا اور نواز شریف نیا پاکستان بنانے کی بات کرکے 1970ءکی تاریخ دھرانا چاہتے ہیں، وہ ایسا کیوں سوچ رہے ہیں انہیں اپنی اس سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ 2008ءمیں پنجاب کے پاس 17ارب روپے بجٹ میں سرپلس موجود تھے اور اب یہ صوبہ 134ارب روپے کا مقروض ہے، ڈیری فارم شریف فیملی کے رشتہ داروں کو دیئے جارہے ہیں اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ عالمی بنک بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی تعریف کرچکا ہے جبکہ پنجاب میں 50 ارب روپے سستی روٹی سکیم میں ضائع کردیئے گئے اگر یہی پیسے پنجاب بجلی بنانے میں لگاتا تو بحران کافی حد تک کم ہوجاتا۔ نواز شریف کو اٹک جیل کی راتیں اور سی ون تھرٹی میں فوجیوں کی طرف سے ہتھکڑیاں لگانے کے واقعات بھولنے نہیں چاہئیں۔ وہ 99ءکی طرز پر سیاست نہ کریں اور نفرتیں بڑھا کر مفاہمت کی پالیسی کو سبوتاژ کرنے کا عمل چھوڑ دیں۔