محمد زابر سعید بدر, ایک ہمہ جہت شخصیت

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 06, 2017 | 20:13 شام

ڈاکٹر شازیہ اشفاق.شعبہ سیاسات/جامعہ کراچی

کتاب دوست اورقلمی دنیا میں شائد ہی کوئی ایسا ہو جو آپ کے نام سے نا واقف ہو، قلمی خدمات میں مختلف موضوعات پر50 سے زائد کتب کی تخلیق آپ کے دانشوارانہ و انقلابی ذہن کی عملی دلیل ہے، صحافت و علمی اداروں سے وابستہ افراد آپ کی خدمات سے بخوبی فیضیاب ہو رہے ہیں۔میرا شمار بھی کچھ ایسے ہی افرا دمیں سے ہوتا ہے۔ زابر سر سے تعارف بذریعہ کتاب”پاکستان اور گلوبل ورلڈ، پاکستان اور ورلڈ افیئرز“ ہوا۔میں اُس وقت اپنے پی ایچ ڈی کے تھیسیز کی تکمیل کے سف

ر سے گزر رہی تھی،زابر صاحب کی کتاب میں موجود اُن کے فون نمبر رابطہ سے ہوا،اور اُنھوں نے نہ صرف ریسرچ ورک میں مدد کرنے کی حامی بھرلی بلکہ جب جب مجھے دشواریوں کا سامنا رہا،میری رہنمائی کی اور ریسرچ ورک کے دوران ایک ریسرچر جن اذیت ناک مسائل سے دوچار ہوتا ہے اُن سے کیسے اور کیونکر نمٹا جائے یہ سکھایا۔افغان وار کے بعد جس طرح عالمی سیاست نے کروٹ لی،اور جہاد و اسلام کے ماننے والوں اور اسے پسند کرنے والوں کیلئے یہ عہد اس لحاظ سے کافی مشکل رہا کہ نئی عالمی قوت امریکہ نے دہشتگرد اور دہشتگردی کی نئی پالیسی اپنا کر جہاد اور جہادیوں کو اپنے مفادات کی عینک سے دیکھا اور دنیا کو عالمی میڈیا کے ذریعے وہی کچھ دیکھانا شروع کردیا جو وہ دیکھانا چاہتا تھا۔ایسے میں اسلام اور اسلام کے ماننے والوں کیلئے افغان وار کے دوران دی گئی قربانیوں اور ۱۱/ ۹ کے بعد کی صورتحال میں جہاد اور جہادیوں کو سمجھنا مشکل ہورہاتھا۔عالمی سیاست کے نشیب و فراز کو میرے جیسی نو آموز لکھاری کیلئے بھی دشوار تھا جیسے آسان بنانے میں زابر صاحب اور اُن کی کتب نے میری رہنمائی کی۔آپ کی تحریریں آسان فہم وسادہ لفظوں کی حامل ہیں یہی وجہ ہے کہ طالب علم ہو یا ایک عام قاری، اُن کے انداز بیاں اورنظریات سے استفادہ ہی نہیں کرتا بلکہ گمبھیر مضامین کو بھی بخوبی سمجھنے کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے۔ہمہ جہت شخصیت کے حامل زابر سعید بدر یقینی طور پر ایک محب وطن مسلمان دانشور کی حیثیت و مرتبہ کی پاسداری و ذمہ داری سے واقف ہیں،باریک بینی کے ساتھ ماضی حال و مستقبل کادانشوارانہ وسیع مطالعہ اور تجزیہ اُن کے مثبت نظریات کی دلیل ہے۔پاکستانی معاشرے کی سیاسی،سماجی و ادبی تاریخ کو بہ نوک قلم جس طرح صفحات پر سجاتے ہیں وہ آپ ہی کا خاصہ ہے۔اللہ رب العالمین سے دعاگو ہوں کہ وہ ہمیشہ اسی جذبے کے ساتھ اپنے علم وقلم سے ملک و قوم کی خدمت کرتے رہیں۔