12 اکتوبر1999:نواز شریف حکومت کا وہ اعلیٰ ترین عہدیدار جسے اپنا عہدہ برقرار رکھنے کی پیشکش خود جنرل پرویز مشرف نے کی تھی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 12, 2016 | 17:13 شام

لاہور(ویب ڈیسک)محمد رفیق تارڑ کا شمار وزیراعظم محمد نواز شریف اور ان کے خاندان کے بہی خواہوں میں ہوتا ہے۔ 12 اکتوبر 1999ءکو فوجی بغاوت ہوئی تو وہ ملک کے صدر تھے۔ بعد میں جنرل (ر) پرویز مشرف نے انہیں بھی غیر آئینی طور پر ان کے عہدے سے الگ کیا اور خود صدر مملکت بن بیٹھے۔عہدہ صدارت سے الگ ہونے کے بعدسابق صدر رفیق تارڑ چار دیواری کے اندر ہونے والے پارٹی اجتماعات میں برابر شریک ہوتے رہے ۔ حتیٰ کہ ملک میں پرویز مشرف کی 3 نومبر 2007ءکی ایمرجنسی کے خلاف احتجاج میں پیش پیش رہے جہاں پول

یس کے لاٹھی چارج گرفتاریوں اور آنسو گیس کے سامنے بھی وہ سینہ سپررہے۔ نیلا گنبد مسجد میں رفیق تارڑ‘ سردار ذوالفقار کھوسہ‘ راجہ اشفاق سرور‘ خواجہ سعد رفیق‘ میاں مرغوب احمد‘ مجتبیٰ شجاع اور رانا محمد ارشد موجود تھے۔ سردار ذوالفقار کھوسہ سمیت دیگر قائدین کو پولیس لے گئی۔ رفیق تارڑ مسجد سے جلوس کی قیادت کر رہے تھے کہ پولیس نے ہائی کورٹ جانے سے روک دیا۔ پولیس کی دھکم پیل اور پکڑ دھکڑ میں ان کا دم گھٹنے لگا تو وہ وہیں سڑک پر بیٹھ گئے۔ ان کا سانس اکھڑ گیا تو ایک فارمیسی والے نے صورت حال دیکھ کر شٹر اٹھا دیا اور ایمرجنسی میں انہیں وہاں بیٹھنے کیلئے بندوبست کیا۔ اگرچہ اس واقعہ نے انہیں مسلم لیگی کارکنوں کی آنکھوں کا تارا بنا دیا تاہم شریف فیملی کی وطن واپسی کے بعد انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی کر لی۔ جناب مجید نظامی کی رحلت کے بعد ان دنوں وہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین کے طور پر ملک وقوم کی نظریاتی اساس کی ترویج اور آبیاری کام جاری رکھے ہوئے ہےں۔ ان سے سانحہ 12 اکتوبر کے بارے میں گفتگو نذر قارئین ہے۔


 

سوال:۔ 12 اکتوبر 1999ءکو کیا ہوا تھا؟

جواب:۔ اس دن پچھلے پہر وزیراعظم محمد نواز شریف ایوان صدر تشریف لائے‘ ان کے ساتھ دو ایک اہلکار بھی تھے۔ انہوں نے ایک فائل میرے سامنے رکھی جس پر درج تھا کہ جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف کے عہدے سے ہٹا دیا ہے اور ان کی جگہ جنرل خواجہ ضیاءالدین کو آرمی چیف بنا دیا ہے۔ نیچے لکھا تھا پریذیڈنٹ MAY PLEASE SEE میں نے اس کے نیچے لکھا SEEN اور فائل انہیں دے دی۔ وہ تھوڑی دیر بیٹھ کر تشریف لے گئے۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد افواہیں شروع ہو گئیں کہ فوج آگئی ہے۔ میں نے وزیراعظم ہاؤس فون کیا ، فون خود میاں نواز شریف صاحب نے اٹھایا۔ میں نے کہا کہ بڑی افواہیں پھیلی ہوئی ہیں کہ فوج آگئی ہے کیا واقعی ایسی کوئی صورت حال ہے۔ میاں صاحب نے جواب دیا ”وہ داخل ہو گئے ہیں“۔ میں نے پوچھا کہ میرے لئے کیا حکم ہے مگر دوسری طرف سے فون بند ہو چکا تھا۔ رات کو پرویز مشرف کا کراچی سے ٹیلی فون آیا۔ اس نے مجھے کہا ”سر کسی وقت رات کو ہی اسلام آباد پہنچوں گا اور علی الصبح آپ کے پاس آؤں گا‘ میرے آنے تک اپنے بارے میں آپ کوئی فیصلہ نہ کریں۔

سوال:۔ تو پھر جب وہ اگلی صبح آئے؟ کیا کہا؟

جواب:۔ پرویز مشرف صبح ایوان صدر آئے اور مجھے کہا کہ SIR YOU WILL CONTINUE میں نے جواب دیا کہ I have not decided so far and I will take three days to decide اس پر وہ گھبرا گئے اور مجھے کہا کہ صدارت جاری رکھنے کی ابھی منظوری چاہیے آپ کی وجہ سے ہمیں ڈیمو کریٹک cover مل جائے گا وگرنہ یورپ اور امریکہ پاکستان کو rog سٹیٹ قرار دے دیں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ اس سے پہلے ملک میں ایوب خان‘ یحییٰ خان اور ضیاءالحق نے بھی مارشل لاءلگایا لیکن ان میں سے کسی کو اس وقت کے وزیراعظم نے نوکری سے نہیں نکالا تھا۔ آپ نے سارا سسٹم ہی ختم کر دیا ہے۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ ابھی وقت ہے کہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرو‘ انہیں میرے پاس لاؤ‘ میں آپ لوگوں اور وزیراعظم نواز شریف کے مابین کوئی راستہ نکال لوں گا۔

سوال:۔ پرویز مشرف کا جواب اور طرز عمل کیا تھا؟

جواب:۔ میرا خیال ہے کہ انہیں خوف لاحق تھا کہ انہیں اقتدار پر پورا کنٹرول حاصل نہیں۔لیکن جب صبح ملک بھر میں کوئی رد عمل سامنے نہ آیاتو پھر وہ مطمئن ہو گئے اور میرے پاس نہیں آئے۔ تاہم پرویز مشرف نے اپنی تقریر میں کہا کہ صدر مملکت نے میری درخواست پر اپنے منصب پر رہنا قبول کر لیا ہے اور آئی ایس پی آر نے پریس ریلیز جاری کر دی۔ جس میں یہ لکھا تھا کہ پرویز مشرف نے صدر محمد رفیق تارڑکا شکریہ ادا کیا ہے کہ انہوں نے صدر مملکت کے عہدے پر برقرار رہنے کی رضامندی دے دی ہے تاہم جب ان کے پوری طرح پاؤں جم گئے تو مجھ پر استعفے کے لئے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا گیا۔ دھمکیاں بھی دی گئیں مگر میں نے دو ٹوک انداز میں کہہ دیا کہ صدر کا استعفے قومی اسمبلی کے سپیکر کے پاس جاتا ہے اور اسمبلی ختم کر دی گئی ہے لہٰذا استعفے نہیں دوں گا۔ تاہم پرویز مشرف نے ایک سطری پی سی او جاری کرکے مجھے فارغ کر دیا۔ یہ جون 2001ءتھا۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے کہ استعفے کے مطالبے کے وقت کیا کیا باتیں ہوئیں اور کس طرح مجھ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ میں نے آئے ہوئے تینوں جرنیلوں کو دو ٹوک انداز میں کہہ دیا میں کوئی سیاسی آدمی نہیں، صدارت مجھے سیدھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہے اور میں کفران نعمت نہیں کروں گا۔(ش س۔ع)(بشکریہ روزنامہ نوائے وقت)