آگئی خا ک کی چٹکی کو پرواز ہے کیا؟

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 09, 2017 | 17:25 شام

لاہور(شفق رپورٹ)جسٹس ارشاد حسن خان نے بطور چیف جسٹس اپنا ٹینور پورا کیا،تین سال چیف الیکشن کمشنر رہے ،اس دوران کسی کو اچھا لگا یا برا دیانتداری سے اپنا کام کیا اورایمانداری سے رائے دی جو بعض معاملات میں حکمرانوں بُری لگی لیکن کوئی انکی اور بچوں کی روزی چھیننے کی طاقت نہیں رکھتا۔ ہر کسی نے خدا کو جواب اور جان دینی ہے۔یہ عقیدہ راسخ ہو جائے تو ہرطرف جنرل راحیل شریف اور اے ڈی خواجہ جیسے دوٹوک بات کرنیوالے لوگ نظر آئیں۔ جنرل راحیل شریف سے مسلم لیگ ن کی حکومت خائف تھی اور آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سے

سندھ حکومت تنگ ہے۔کچھ بیورو کریٹ اور وزراء و مشیرانِ کرام خوشامد کی سیڑھی سے ترقی کے آسمان کو چھونے کی کوشش کرتے ہیں۔ مکھن کا پیڑا ہمہ وقت ہاتھ میں ہوتاہے۔ گورنر سندھ زبیر عمر کو اس سے بڑا اور کیا عہدہ چاہئے۔ فرما رہے ہیں کراچی میں امن کا سو فیصد سہرا وزیراعظم نوازشریف کے سر ہے۔ وزیراعظم کو خوشی سے نہال کرنے کیلئے یہی کافی تھا مگر وہ یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ اس میں جنرل راحیل شریف کا کوئی کردار نہیں۔ جنرل راحیل عام انسان اور دوسرے جرنیلوں کی طرح جرنیل تھے۔ شاید میاں صاحب کی یہ سائیکی ہے کہ وہ اپنے فضائل پر اتنے خوش نہیں ہوتے جتنے حریفوں کے زرائل سننے پرہوتے ہیں۔انسان تو سب ایک جیسے ہی ہیں کسی کے سر پر سینگ نہیں اُگے ہوتے، تاہم سب جرنیل ایک جیسے نہیں۔ جنرل راحیل کو اے بی سی نیوز پوائنٹ نے دنیا کے دس بہترین جرنیلوں میں پہلے نمبرپر رکھا ہے۔جنرل راحیل کو سعودی عرب اسلامی نیٹو افواج کا کمانڈر بنا رہا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اجلاس میں ان کیلئے اپنے برابر کرسی لگواتے تھے؟؟؟ جنرل باجوہ کیلئے ایسی کرسی نہیں رکھی جاتی۔ جرنیل کی ریٹائر منٹ کے بعدکیڑیوں کو بھی پَر لگ گئے ،بکریاں شیر بن گئیں۔؎

آگئی خا ک کی چٹکی کو پرواز ہے کیا؟

آج کا کالم بوجھل سا ہے آخر میں ایک حکایت سن لیں:۔چوہا شراب کے پیپے میں گرگیا،اسے پکڑ کر ٹھرا بنانے والے نے باہر پھینک دیا۔اس دوران اسے چڑھ چکی تھی،اس نے دُم پر کھڑے ہوکر کہا،اوئے سالو! نکالوباہربلی کو لائو میرے سامنے بلی کو۔